نئی دہلی// نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑنے ملک کو ذاتی مفادات اور سیاسی اختلافات سے بالاتر رکھنے پر زور دیتے ہوئے آج کہا کہ قوم پرستی سے کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے اور دشمنوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے ۔
راجستھان کے اجمیر میں سینٹرل یونیورسٹی آف راجستھان میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر دھنکڑ نے کہا کہ دشمن کے مفادات کو کسی بھی حالت میں فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا "یہ ایک افسوسناک ، تشویشناک اور سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے کچھ گمراہ لوگ آئین کا حلف لینے کے باوجود مادر وطن کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ قوم پرستی سے سمجھوتہ کر رہے ہیں اور قوم کے تصور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ نہ جانے کس خود غرضی سے وہ بھارت ماتا کا خون بہانا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارے ہندوستان میں سوئی بھی چبھ جائے تو 140 کروڑ لوگ درد محسوس کریں گے ۔
نائب صدر نے کہا کہ ہر ہندوستانی جو ملک سے باہر قدم رکھتا ہے وہ ہندوستانی قوم پرستی کا سفیر ہوتا ہے ۔ وہ ہندوستانی ثقافت کے سفیر ہوتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بطور اپوزیشن لیڈر اس ثابت کیا ہے ۔ انہوں نے کہا [؟]وزیر اعظم کسی اور پارٹی ، کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتے تھے ، نرسمہا راؤ جی وزیراعظم تھے ، بیرون ملک ایک اہم حساس کشمیر سے متعلق مسئلہ معاملے پر ر اٹل بہاری واجپائی اپوزیشن لیڈر تھے اور ہندوستان کی قیادت کر رہے تھے ۔ ”
مسٹر دھنکڑنے کہا کہ ایسا کام ملک کے اندر یا باہر نہیں کیا جانا چاہئے ، یہ ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، یہ ہندوستانی قوم پرستی کو فروغ نہیں دیتا، یہ قوم پرستی کو مایوس کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خواب پورے کرو، تم اپنے دشمنوں کے خواب پورے کرنے میں کیوں مصروف ہو؟ ملک کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں کو تاریخ نے کبھی معاف نہیں کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ بنیادی فرائض کے بارے میں بات کرنا بہت ضروری ہے ہندوستانی آئین کے چوتھے حصے میں رہنما اصول ہیں۔ اس میں بھگوان شری کرشن کی تصویر ہے جو کروکشیتر میں ارجن کو تبلیغ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "یہ مشورہ ہے کہ توجہ مرکوز کیے بغیر، رشتوں کو دیکھے بغیر، مقصد کو حاصل کریں۔ اور ہمارے مقاصد کیا ہیں؟ ہماری قوم پرستی۔ ہمارا مقصد ہمارا ہندوستان ہے ۔
مسٹر دھنکڑ نے کہا کہ پچھلے 10 برسوں میں ہمیں ایک شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا نظام ملا ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے ۔ لیکن کچھ لوگ اس سے پریشان اور پریشانی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ [؟]سیاست نے ان پر اس طرح غلبہ پا لیا ہے کہ وہ قوم کو بھول گئے ، قومی مفاد کو بھول گئے اور یہ بھول کر قومی مفاد پر حملہ کرنے لگے ۔ بیرون ملک حملہ کرنا شروع کیا، ان لوگوں سے ملنا شروع کیا اور کرنا شروع کیا، جن کے کرتوت مشہور ہیں- اس کے ساتھ بیٹھنا، اس کے ساتھ سوچنا شروع کردیا ۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ ہمارے دلوں پر کیا گزری ہوگی۔ خدا اسے عقل دے ۔’’
نائب صدر نے کہا ”میرے عہدے پر فائز ہوکر میرا کام سیاست کرنا نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا کام کرنا چاہیے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے نظریات کے مطابق کام کرنے میں آزاد ہیں۔ نظریہ مختلف ہوگا، حکمرانی کے حوالے سے رویہ مختلف ہوگا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن ایک چیز میں مماثلت ہوگی کہ ملک سپریم ہے ۔ قومی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جا سکتی۔ قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے ۔ قوم کو چیلنج آئے گا، ہمارا رنگ کچھ بھی ہو، ہمارا مذہب کچھ بھی ہو، ہماری ذات کچھ بھی ہو، ہماری ثقافت کچھ بھی ہو، ہماری تعلیم کچھ بھی ہو، ہم سب ایک ہیں ۔ ’’
انہوں نے کہا "یہ درد کا موضوع بن گیا ہے . دنیا کے لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں کہ ایک شخص آئینی عہدہ پر فائز ہے ، اور بیرون ملک جاکر ایسا برتاؤ کر رہا ہے کہ وہ اپنے آئین کے حلف کو بھول گیا، ملکی مفاد کو نظر انداز کر دیا اور ملک کے وقار اور ہمارے ادارے پر حملہ کیا۔