کشمیر میں لوگوں کو ایک مدت سے جن مسائل کا شدت سے سامنا ہے اور جن مسائل اور معاملات نے سنگین نوعیت کی پیچیدگیوں اور پریشانیوں کے ہمالیہ کھڑے کردیئے ہیں انہیں سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرکے ان کا حل تلاش کرنا اہم ترین تقاضہ ہے۔ ان مسائل کی نوعیت کیا ہے وہ اب محتاج بیان نہیں رہے کیونکہ ان کے بارے میں لوگ بہتر علمیت رکھتے ہیں لیکن ان مسائل کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی شدت اختیار کرتا جارہاہے کہ کچھ سیاسی اورغیر سیاسی حلقے کشمیر کو ایک مخصوص راستے پر گامزن کرنے کی کوششوں میں جومعاونتی کرداراداکرتے نظرآرہے ہیں وہ کشمیر کی مزید تباہی اور بربادی کا ہی موجب نہیں بن پائیگابلکہ بحیثیت مجموعی کشمیرکی منفرد شناخت یہاں تک کہ ان کے نظریات، عقیدوں، دیرینہ موقف، صحت ، بقاء اور سلامتی تک کو نابود کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
اس مخصوص تناظرمیں حساس حلقے انگشت بدندان ہیں کہ کشمیرکی سیاسی قیادت کی دعویدار پارٹیاں اور ان کی لیڈر شپ ان اشوز کو ایڈریس کرنے سے کیوں دامن کراتی نظرآرہی ہیں۔ سبھی فی الوقت الیکشن میدان میں ہیں اور اپنی جیت کو ممکن بنانے کیلئے ہر ممکن جتن کررہی ہیں، سیاسی نظریات اور سیاسی طرزعمل کے حوالہ سے سیاسی گڑھے مردے اکھاڑنے میں زیادہ وقت اور زبان صرف کررہی ہیں حالانکہ ان گڑھے مردوں کا تعلق فی الوقت عوام کودرپیش مسائل اور معاملات سے قطعاً نہیں ہے لیکن کم و بیش ہر پارٹی کی قیادت اور ان سے وابستہ چھوٹے اور درمیانہ قد کے سیاست کا رجن میں کچھ ایک سابق سرکاری ملازم بھی رہے ہیں، سابق جنگجو بھی رہے ہیں، کاروباری بھی رہے ہیں، وقت وقت پر مختلف پارٹیوں سے وابستہ رہ کر ان پارٹیوں کا چوغہ زیب تن کرکے عوامی دربارمیں جلوہ گر رہ کر سیاست بھی کرتے رہے ہیں موجودہ معاملات اور اشوز کو درکنا ر کرکے ماضی میں ڈبکیاں لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیاسی نظریات، سیاسی کردار سیاسی فکر وعمل کے تعلق سے جو رول ادا کیاجاچکا ہے اور جو کارنامے ان سے منسوب ہیں وہ سب تو عوام کی نظروں میں ہے لیکن ماضی کے ان گڑھوں کو کھود کر سیاست کی گلی سڑی لاشوں کو باہر نکالنے سے کشمیر کا اور بحیثیت مجموعی عوام کا کون سا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟عمرعبداللہ بھی ماضی کو کریدتے نظرآرہے ہیں ، محبوبہ مفتی بھی اپنے والد مرحوم کے تعلق سے ماضی میں ہی سجدہ ریز نظرآرہی ہے، اپنی پارٹی کا بانی بھی بخشی مرحوم کے ثانی کا روپ دھارن کرنے کیلئے بے تاب نظرآرہے ہیں جبکہ مرحوم لون صاحب کے جانشین اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران اب تک کئی یوٹرن لیتے لیتے کسی کسی کی وکالت کرنے کیلئے پریس کے سامنے جلوہ گر نظرآتے ہیں تو کبھی ذومعنی زبان اور الفاظ استعمال کرکے اپنے تاجر انہ نوعیت کے سیاسی قد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی دھن میں مست دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی کے حوالہ سے زیادہ گہرائیوں میںموجود ہ مصائب ، معاملات اور تذبذب کے ہوتے جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی گنجائش لیکن محبوبہ مفتی اپنے بیانات اور تقریروں میںماضی کے حوالہ سے جن معاملات کو لے کر اپنے سیاسی مخالفین پر تیروں کی بارش کرتی دکھائی دے رہی ہے چلائے جارہے وہ سارے تیراس لئے نشانے پر نہیں لگ رہے ہیںکیونکہ انہیں چلانے کیلئے جس نریٹو کا سہارا لیاجارہا ہے وہ نریٹو تاریخی پس منظرمیں حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔ مثلاً وہ تر ک موالات کی بات کررہی ہیں۔ وہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور ترک موالات کے نام پر کشمیر میں کیا کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا ان مٹ حصہ ہے ۔لیکن مفتی محبوبہ ترک موالات کا حوالہ دیتے وقت اس کے مخصوص تاریخی پس منظر ، اُس وقت کے معاملات، مفتی محمدسعید کی قیادت میںکانگریس کے اندر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں جنہیں سابق وزیر اعلیٰ سید میر قاسم اپنی داستان حیات میں ’’شرارتی‘‘ کے طور پیش کرچکے ہیں، کے غلیظ اور گندے رول کو نظرانداز کیوں کررہی ہے۔
چاہئے محبوبہ جی ماضی کو کریدے یا عمر عبداللہ ، دونوں سے یہی مخلصانہ مشورہ بھی ہے اور اُمید بھی کہ وہ ماضی کی اندھیری گلیاریوںاور آپسی متعصبانہ سیاسی فکروں سے عوام اور کشمیر کے وسیع ترمفادات میںخود کو آزاد کریں کیونکہ سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ کا جو بھی ماضی کاکرداررہا ہے وہ مجموعی طور سے سودا گرانہ، معذرت خواہانہ، حقیر مفادات اور عزائم سے وابستہ سمجھوتوں سے عبارت اور عوام دُشمنانہ رہا ہے، وہ استحصالی سیاست کا دور تصور کیاجارہاہے، لوگ سیاستدانوں سے اندھی محبت اور جذبات وابستہ رکھتے تھے اوران سے نہ ان کی غلطیوں پر سوال کرتے اور نہ کسی اچھائی کے تعلق سے استفسار کرتے، بلکہ اُس دور کے لوگوں کے بارے میں مختصر ترین الفاظ میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ وہ اپنے دور کے اندھ بھگت گذرے ہیںجس کافائدہ مفادپرست سیاستدانوں نے اُٹھایا اور نتائج خمیازہ کی شکل وصورت میں آج کی کشمیری نسل کو بھگتنا پڑرہاہے۔
اس مخصوص سیاسی کردار اورفکر کی ایک اور مثال اُس جماعت کے ماضی، ماضی قریب اور حال کے حوالہ سے بھی سامنے رکھی جاسکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے ممنوعہ قرار دیئے جانے پر الیکشن میدان میںاُترنے کیلئے یہ جواز اور استدلال کہ اب حالات بدل رہے ہیں اور بیلٹ بکس کا سہار الے کر ہی مسائل کا حل تلاش کیاجاسکتا ہے جبکہ اس راستے پر چلنے کیلئے اب پارٹی آئین میںبھی تبدیلی کا اشارہ دیاجارہاہے۔ لیکن عسکری دورمیں بالادستی اوردبدبہ حاصل کرنے کیلئے الحاق تک کو چیلنج کیاجاتارہا اور مسئلہ کشمیر کو تقسیم کا نامکمل ایجنڈا بھی قرار دیا جاتارہا لیکن یہی پارٹی جب ۱۹۷۲ء کے انتخابات میںشرکت کی چاہت رکھتی تھی تو اس کی قیادت کو واضح طور سے بتایا گیا تھا کہ چونکہ جماعت الحاق کو حتمی تسلیم نہیں کرتی لہٰذا ان کے اُمیدواروں کے نامزدگی کاغذات کو مسترد کردیاجائے گا کے جواب میں اسوقت کی جماعت کی قیادت نے ’’یقین دلایا کہ ہمارے اُمیدوار فارم داخل کرتے وقت ہندوستان کے آئین اور جموںوکشمیر کے آئین کی حمایت میںحلف وفاداری اُٹھائیں گے، پھر عدالت میںبھی یہی بیان دہرایا کہ ہم ہندوستان کے ساتھ الحاق کو حتمی مانتے ہیں…‘‘
ماضی اور ماضی قریب میں سیاست کاروں کے اس رول اور کردار جس کے نتیجہ میں کشمیر کے وسیع ترمفادات اور حقوق کا بیڑہ غرق ہوتارہا کیلئے کوئی تو ذمہ دار ہے، لیکن ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وسیع تر تناظرمیں اور موجودہ حالات میںعوام کو درپیش گونا گوں مسائل کو پیش نظررکھتے ہوئے ہم اس بات کے قائل نہیں کہ فی الوقت ماضی کے حوالہ سے گڑھے مردوں کو اکھاڑ اجائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیرکی مخصوص اور منفرد پہنچان کی بحالی، مجموعی امن، ترقی اور تہذیبی جارحیت کے حوالہ سے جو حالات پید اہوتے جارہے ہیں انہیں روکنے کیلئے کشمیر کی سیاسی قیادت کے دعویدار کم سے کم آپس میں ایک میز پر بیٹھ جائیں اور کشمیر کیلئے ایک مشترکہ نریٹو وضع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔