اگر وہ واقعی مظلوم ہیں تو پھر کشمیر کے مخصوص سیاسی، معاشی اور معاشرتی منظر نامے میں ظالم کون ہیں اور ظلم کی اصطلا ح کیا ہے؟اس تعلق سے کشمیر کے محض ۸۰؍ سالہ سیاسی منظرنامہ کو اگر بُنیاد بناکر دیانتدارانہ تجزیہ کیاجائے اور اب تک اس پوری مدت کے دوران پیش آمدہ واقعات، معاملات اور سیاستدانوں کے طرزعمل کا احاطہ کیاجائے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کی سیاسی اُفق سے وابستہ کوئی ایک بھی سیاسی قبیلہ ، پارٹی یا لیڈر دودھ کا دھلا نہیں اور نہ ہی وہ مظلو م ہے لیکن اگر اُس اصطلاح میں کوئی مظلو م ہے یا مظلوم قراردیا جاسکتا ہے تو وہ اوسط ’’کشمیری‘‘ ہے۔لیکن المیہ یہ ہے یا بہت بڑی بدقسمتی کہئے کہ یہاںکے سیاسی جرگے ،جن کی فطرت اور خصلت ابن الوقتی اور مفادپرستی سے عبارت رہی ہے خود کو مظلوم کے طور پیش کررہے ہیں۔
ایک ایسی نیم سیاسی جماعت جس کا سیاسی ریکارڈ کسی فخر کا عکاس نہیں، جس کی سرگرمیوں، منشور اور نریٹو کے نتیجہ میں اُس پر پابندیاں عائد ہیں، جس نے عسکری سرگرمیوں میں فعال رول ادا کیا، جس کے عہدیداروں اور کارکنوں کے اثاثے تک ضبط کئے جارہے ہیں کی مردہ لاش میں نئی روح پھونک کر اور ایک نئے روپ میں بلکہ مظلوم قرار دے کر کشمیرکی سیاسی اُفق سے وابستہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں، البتہ یہ ابھی واضح نہیں کہ ان سرتوڑ کوششوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ایجنڈا کس کا ہے اور ہدف کیا ہے؟ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس حوالہ سے پہلا دروازہ سید الطاف بخاری نے کھول لیاتھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خود اس کی اپنی پارٹی کو حالیہ پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے کوئی فائدہ تو حاصل نہیں ہوا لیکن محض لنگیٹ حلقے کی ایک سیٹ پر دوبار کامیابی حاصل کرنے والے سابق رکن اسمبلی سارا کچھ ثمرہ اپنی جھولی میں سمیٹنے میںکامیاب رہا جوبقول پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے یہ رائے شماری کے جذبات کا عکس تھا۔
مرحوم عبدالغنی لون کے چشم چراغ سجاد غنی لون کا ایک تفصیلی بیان منظرعام پر آیا ہے جس میں انہوںنے جہاں جماعت کی الیکٹورل میدان میںواپسی کے فیصلے کا والہانہ خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’میں ذاتی طور اس فیصلے پربہت خوش ہوں‘‘وہیں انہوںنے جماعت کو مظلوم قرار دے کر فتویٰ طرز پر اپنی یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ ’بہت جلد مین سٹریم ظالم انہیں بدنام کرنے کی مہم شروع کریں گے جو خفیہ اور اعلانیہ دونوں طرح سے ہوگی۔انہیں میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے حمایت حاصل ہوگی جو مبینہ ذرائع کی بُنیا د پر کہانیاں شائع کرے گا خاص طور پر قومی میڈیا ، نام نہاد سیکولر میڈیا سب سے پہلے ایسی افواہیں پھیلائے گا… اپنے دل پر ہاتھ رکھ کرمیں خوش ہوں کہ مظلوموں میں سے ایک گروہ الیکشن میں حصہ لے گا… لون صاحب نے اپنے اس مخصوص بیان میںبار بار مظلوم اور ظالم کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ ظالم کانام لئے بغیر بیان کا اشارہ کس کی طرف ہے یا مخاطب کون ہے البتہ تاریخ ۱۹۸۹ء کا حوالہ دے کر شناخت ظاہر کردی ہے۔
یہ ایک ایسی بحث ہے جو چھڑ جائے تو جوکچھ بھی پردوں کی اوٹ میں ہیں وہ بے نقاب ہوجائیں گے۔ جس عسکری تحریک، جس کا خود لون خاندان سرپرستی اور قیادت کرتا رہا، کو جماعت سے وابستہ اس کے بعض قدآور شخصیات نے فساد قراردیا کو وقت کی قیادت نے حاشیہ پر دھکیلا اور اپنے کیڈر کو میدان میں اُتارا، جنہوںنے ہاتھ میں بندوق اُٹھاکر عسکریت کے حوالہ سے سارے میدان پر اپنا تسلط جمالیا۔ باقی ہسٹری ہے۔
عسکری تحریک کیوں برپا ہوئی، اس کے پیچھے وہ کون سے وجوہات تھے، اُس دور کی سیاسی، نیم سیاسی، مذہبی اور نیم مذہبی جماعتوں کا رول اور نریٹو کیا تھا، کسی نے زیادہ کردار اداکیا تو کسی نے کچھ کم تر کردار ادا کیا، الیکشن میں عوام کے منڈیٹ کو چراہی نہیں لیا بلکہ اُس الیکشن سے وابستہ پولنگ ایجنٹوں اور انکے افراد خانہ تک کو پولیس تھانوں میںتشدد اور ازیتوں کا نشانہ بنایاگیا، وہ سب کچھ تاریخ میںرقم ہے، ابتداء اگر چند افراد نے کی تو دیکھا دیکھی میں کشمیرنشین ہر سیاسی پارٹی ،ہر مذہبی پارٹی، مین اسٹریم سے وابستہ کچھ پارٹیوں کے کارکن کیا عسکریت سے وابستہ نہیں ہوتے رہے، لیکن آج کی تاریخ میں یہ کردارادا کرنے والوں کیلئے مظلو م کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے جبکہ اوسط شہریوں کے لئے کچھ اور حالانکہ تلخ ترین زمینی سچ یہ ہے کہ سب نے جو بھی بندوق اُٹھاکر میدان میں اُترا نے کشمیر یوں کی ازیت رسانی، ہلاکتوں ، حراستی وغیرحراستی گمشدگیوں ، بھتہ خوری، ایسے مذموم حربوں اور ہتھکنڈوں کا سہارا اور راستہ اختیار کرکے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔
کیا کشمیر کے ہر دیہات، ہر بلاک اور ہر میدان میں سینکڑوں کی تعداد میں قبرستان کشمیریوں کی مظلومیت کی شہادت پیش نہیں کررہے ہیں۔ لیکن جس نے اور جنہوںنے بندوق اُٹھائی اور ملازمانہ رول ادا کیا انہیں مظلوم کے طور پیش کیاجارہاہے۔ سب کچھ عیاں اور بیان حقائق جاننے کے باوجود عوام نے بحیثیت مجموعی ساتھ دیا۔اگر چہ صلے میں انہیں ظالمانہ کریک ڈائونوں، بستیوں کی بستیوں کے کھنڈرات میں تبدیلیوں، آتشزنی، عصمت دری، اثاثوں اور املاک کی تباہی کا درد ملا لیکن تحریک کی قیادت کرنے والوںنے اپنے حقیر مفادات کے حصول کی خاطر اور ابن الوقتی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے سمجھوتے کئے، سودے طے کئے ،ملٹی کروڑ بزنس سلطنتیں قائم کیں، کسی کو بڑا بھائی قراردیا تو کسی کو بڑی بہن، یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟
بہرحال الیکٹورل میدان میں واپسی اور پابندیاں اُٹھانے کے مطالبے کا خیر مقدم صرف پیپلز کانفرنس نے ہی نہیں کیا ہے بلکہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ، اپنی پارٹی اور چند دوسرے بھی کررہے ہیں۔ سنجیدہ اور حساس حلقوں کا ان سب سے ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا ۱۹۹۰ء سے حالیہ ایام تک کے سیاسی نریٹواور عسکری شعبے کے تعلق سے رول اور عوام کو جو کچھ سہنا پڑا اس کیلئے مخصوص قیادت نے کسی ندامت، افسوس اور معافی کا اظہار کیا؟ کیایہ سوال نیشنل کانفرنس محبوبہ مفتی ،سجادغنی لون ، الطاف بخاری جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مین اسٹریم کا حصہ ہیں اور ان کا سیاسی نریٹو مین اسٹریم کے نظریہ پر مبنی ہے نے اب تک کیوں نہ کیا؟
یہ جانتے ہوئے کہ اصل میں مظلوم ہم ہیں لوگ بحیثیت مجموعی بدستور بلکہ اپنی روایات اور سوچ کو برقرار رکھتے ہوئے انہی سیاسی قبیلوں پر اعتماد اور بھروسہ کررہے ہیں جو ماضی اور ماضی قریب میں ان کی مختلف طریقوں سے ازیت رسانی اور جذبات کا استحصال کرنے میںملوث رہے ہیں الیکٹورل پراسیس کا حصہ بننا جمہوری ذمہ داری ہی نہیںبلکہ آئین کے تئیں اپنے فرائض کی تعمیل وتکمیل بھی ہے۔ لیکن کشمیر کے مخصوص سیاسی جغرافیہ کے ہوتے یہ الیکٹورل پراسیس بہت کم قابل اعتماد رہی ہے۔ خدا کرے اب کی بار اعتماد بنا رہے البتہ ساتھ ہی لون صاحب کو یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے مظلومیت کی سندیں تقسیم کرنے سے اجتناب کریں۔
۔۔۔