الیکشن منشور کی ترتیب واجرا ء انتخابی میدان میں اُترنے والی پارٹیوں اور اُمیدواروں کا استحقاق اور صوابدید ہے، مقصد ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرانا ہے اور چنائو منشور میں درج اشوز پر ان کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ اس حوالہ سے پارٹیاں اور اُمیدوار اپنے نظریات، اہداف اور ایجنڈا کے مطابق منشور میں معاملات کی نشاندہی کرنے کی سمت میں آزاد اور خودمختار ہیں۔ اس تعلق سے بادی النظرمیں کسی پارٹی کے چنائو منشور پر کسی دوسری پارٹی کی جانب سے منفی یا مخالفانہ یا کسی اور حوالہ سے ردعمل کا اظہار مناسب نہیں چہ جائیکہ پارٹی کے منشور میںدرج کچھ معاملات کو مخصوص طور سے سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرکے رائے عامہ کو گمراہ بھی کیاجائے اور انکے اندر مخالفت کے جذبات کو اُبھار کر نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کی دانستہ کوشش کی جائے۔
اس حوالہ سے دیکھا جائے تو جموں وکشمیر کی گرینڈ اولڈ پارٹی نیشنل کانفرنس نے آنیو الے الیکشن کے حوالہ سے جو منشور اجرا ء کیا اُس کے مندرجات کا محض سرسری مطالعہ کرنے پر یہ عندیہ یا تاثر مل جاتا ہے کہ اس میںایسا کچھ بھی نہیں جن کے تعلق سے اوسط شہری لاعلم ہیں، یہ ایسے اشوز ہیں جو بادی النظرمیں حساسیت رکھتے ہیں لیکن فرض کریں کہ این سی اقتدارمیںآبھی جائے تو یہ آن واحد میں حل ہوجائینگے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کچھ ایسے اشوزبھی ہیں جو کوششوں کے باوجود بھی دن کا اُجالا نہیں دیکھ پاسکتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس نے اپنے چنائو منشور میں دو سو بجلی یونٹ مفت دینے کا وعدہ کیا ہے، اس وعدہ کی اہمیت مذاق سے زیادہ نہیں کیونکہ جموںوکشمیر کے پاس اسقدر مستحکم مالی وسائل نہیں کہ وہ اس ایک اور بڑے حجم کے بوجھ کو سہنے کی متحمل ہوسکے جبکہ جموںوکشمیر کی مالیاتی ضرورتوں کیلئے مرکز کے مالی امداد پر انحصار بڑھتا جارہا ہے اور جموں وکشمیر پہلے ہی ہمالیائی حجم کے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ ہاں البتہ بجلی کے ہی شعبے کے تعلق سے کچھ اشوز ہیں جن کے حوالہ سے موجودہ ایڈمنسٹریشن نے جموں وکشمیر کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی بجائے نئے پروجیکٹوں کی تعمیر کے حوالہ سے کمپنیوں اور کچھ ریاستوں کے مفادات کا تحفظ نہ صرف یقینی بنا بلکہ جموںوکشمیر کو اس تعلق سے اس کے اصل اور بُنیادی حقوق اور مفادات سے بے دخل کردیا ہے۔ اس تعلق سے معاملات پر چنائو منشور خاموش ہے۔
منشور میں پبلک سیفٹی ایسے سخت گیر قوانین پر نظرثانی کرنے کی بات کی گئی ہے کس پس منظر میںیہ بات کی گئی ہے اس پس منظرکو زمینی حقائق اور بعض انتظامی اقدامات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کو غلط معنی وتشریح کا جامہ پہنا کر عوام کو بدظن کیاجائے۔ اس حوالہ سے فورسز کے فٹ پرنٹ کو امن وقانون اور سکیورٹی معاملات پر کوئی آنچ آئے بغیر کم کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے ۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سکیورٹی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایک پارٹی نے آنکھیں بند کرکے یہ شور بلند کردیا کہ سرینگر جموں قومی شاہراہ پر چیکنگ کا موجودہ طریقہ کار ختم کرنے کا وعدہ کیاجارہاہے تاکہ دہشت گرد،جرائم پیشہ افراد منشیات کے سمگلر آسانی کے ساتھ نقل وحرکت کرسکیں۔ اسی طرح کشمیر نشین ایک نئی پارٹی نے بھی یہ کہکر کہ نیشنل کانفرنس کا چنائو منشور ان کی پارٹی کے منشور کا چربہ ہے مخالفت کی ۔ صرف اسی پراکتفا نہیںکیا بلکہ دعویٰ کیا کہ ہماری پارٹی نے ’’عزت اور ترقی‘‘ کا جو تصور یاخاکہ پیش کیا ہے اس کو بھی این سی نے چرالیا ہے۔دوسرے الفاظ میں کوئی دوسرا لفظ عزت اور ترقی کا استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ بقول ان کے یہ دونوں الفاظ ان کی ذاتی ملکیت ہیں، تعجب ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ این سی نے چنائو منشور میںریاستی درجہ کی بحالی، دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے کی واپسی تمام اختیارات کی واپسی اور دوسرے چند حساس معاملات بشمول اندرونی خود مختاری کے تعلق سے اشوز کو اقتدارمیں آنے کی صورت میں ایڈریس کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ان میں سے کچھ معاملات پر اگر سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنا پڑے تو وہ راستہ بھی اختیار کیاجاسکتاہے۔ اس تعلق سے اس سوال کہ سپریم کوٹ پہلے ہی دفعہ ۳۷۰ وغیرہ کے تعلق سے اپنا فیصلہ دے چکی ہے جبکہ ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اپنی ہدایت اس حد تک محدود رکھی ہے کہ مرکزی سرکار اس کی جلد بحالی کو یقینی بنائیں یہ استدلال پیش کیاگیا کہ عدالت عظمیٰ ان معاملات پر پہلے ہی اپنے کچھ فیصلے دے چکی ہے، ایک فیصلہ خلاف دینے کے باوجود کوئی عجب نہیں کہ اب کی بار فیصلہ ہمارے حق میں دے۔
دُنیا اُمید پر قائم ہے، توقعات بھی اُبھرتے رہتے ہیں لیکن جموں وکشمیرکے حوالہ سے اسی سپریم کورٹ کے طرزعمل پر جب نگاہ پڑتی ہے تو مایوسی ہوتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے حوالہ سے یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ اس عدالت نے جموںوکشمیر باز آبادکاری بل سالہاسال تک التواء میںرکھی، کیایہ حقیقت نہیں کہ اسی عدالت نے عصمت دری کے سانحہ عظیم کے تعلق سے سالہاسال قبل دائر معاملہ کوا لتواء میں ڈال رکھا ہے، کیا دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے معاملہ کی سنوائی کئی سال تک سرد خانے کی نذر کرنے کے بعد جب فیصلہ دیا تو ریاست جموں وکشمیر کا درجہ ختم کرنے اور اس ریاست کو دو یوٹیز میںتبدیل کرنے کے بارے میں کوئی لب کشائی نہیں کی، پھر بھی نیشنل کانفرنس نئی اُمیدیں جگانے کی کوشش کررہی ہے تو اعتراض کی گنجائش بہت کم رہتی ہے۔
چنائو منشور میںسیاسی اور علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی بھی بات کی گئی ہے جس خود مختاری کو ۵؍اگست کے حکومتی فیصلے کے تحت چھین لیاگیا۔ سیاسی اور علاقائی خودمختاری پارٹی کا ایک دیرینہ نظریہ اور موقف ہے۔ اس حوالہ سے پارٹی جب اقتدار میںتھی تو قانون ساز اسمبلی نے خودمختاری سے متعلق بھاری اکثریت سے مسودہ منظور کیا، اس مسودہ کو اُس وقت کی مرکزی حکومت کو جب پیش کیاگیا تو مرکز نے اس کو کوڈا دان میں پھینک دیا، این سی اُس وقت مرکزی وزارت میںموجود تھی،پارٹی کچھ نہ کرسکی اور خاموشی کے ساتھ شریک اقتدار بنی رہی ، پھر کانگریس کے دورمیں قائم جسٹس صغیر کمیشن کی شفارشات کی روشنی میں عمرعبداللہ کی سرپرستی میںمخلوط سرکار پورے چھ سال کی مدت اقتدار کے باوجود ایک انچ بھی پیشقدمی حاصل نہیں کرسکی کیونکہ کانگریس نے بھی اس کی مخالفت کی۔
اندرونی ،سیاسی اور علاقائی خودمختاری عوام کی نگاہوں میںبہت ہی حساس اور جذباتی حد تک ایک ایسی اہمیت کا حامل اشو ہے جس پر کسی قسم کی سودا بازی، معذرت خواہی یا سمجھوتہ بازی قابل گوارا نہیں، اس تعلق سے خود نیشنل کانفرنس اور اس کی وقت وقت کی قیادت کا ریکارڈ اطمینان بخش نہیںسمجھا جارہاہے۔ کبھی خاموشی سے کام لیا، کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا، کبھی اقتدار کی مصلحتوں کے تابع دوسرے راستے اختیار کئے، پھر بھی اگر پارٹی نے اب کی بار اس اشو کو جذباتی سمجھ کر منشور کا حصہ بنا یا تو اُس حد تک قابل قبول ہے لیکن ان کے حصول یا بحالی کا جہاں تک تعلق ہے توا س کے لئے عملی جدوجہد درکار ہے جس کا گہرا فقدان ہے۔
عملی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کیلئے عہدبندی، جوش وجذبہ ،خلوص اور نظریہ اور موقف کے حوالہ سے تواتر اور تسلسل درکار ہے، اس کیلئے پارٹی کی اولڈ قیادت کو نئی پُر جوش قیادت کیلئے راستہ ہموار کرنے کیلئے از خود ہٹ جانا چاہئے۔