ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب آسمان پر گہرے کالے بادل چھاجاتے ، دن کا اُجالا اچانک گہن زدہ ہوجاتا تو بزرگ آسمان کی طرف نظریں اُٹھاکر اللہ سے رحم وکرم کی دعائیں مانگتے اور یہ کہتے سنے جاتے کہ معلوم نہیں کہاں اور کس نوعیت کی کس کے ساتھ زیادتی ہوئی، ناانصافی ہوئی، حق چھیناگیا، زخمی ہوا یا قتل ، کچھ ہی دیر بعد سچ سامنے آجاتا اور وہ سامنے آتا جو ہوچکا ہوتا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ بحیثیت مجموعی روشن ضمیر تھے، خدا ترس تھے، ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے، ہر قدم نیکی اور ایک دوسرے کے تئیں خلوص کا جذبہ ہر دل میں موجزن تھا۔ اعتدال پسندی، تقویٰ اور پرہیزگاری کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ زمانہ کشمیرکے حوالہ سے اب داستان پارینہ بن چکا ہے ۔ روشن ضمیری ضمیر فروشی میں بدل گئی ہے، خداترسی ، تقویٰ ، پرہیزگاری کو زندگیوں میںدقیانوسی سمجھا جارہا ہے، ایک دوسرے کے تئیں حسد، بغض ، نفرت، ضِد، دُشمنی روزمرہ زندگی کا ان مٹ خاصہ بن چکا ہے۔ لالچ ،ہوس ، مادہ پرستی اور ضمیر فروشی کو اب معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ بدلتے تقاضوں، خواہشات کا انبوہ، نئی ترجیحات کو معاشرتی سطح پر ترقیات کا زینہ اور سماجی سطح پر معززین کی صف میں کھڑا ہونے کی سمت میں ایک اعزاز تصور کیاجارہاہے۔
جب ہم عموماً کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہ کشمیر جو ہمارا فخر تھا، سرمایہ افتخار تھا، جس کشمیر پر ہم ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کی سطح پر پذیرائی کی جاتی وہ کشمیر کہیں کھو گیا ہے ۔ اُس مخصوص کشمیرکا ذرہ ذرہ اب اپنا نہیں رہا کیونکہ اس کے اپنے جس میں اس کی سیاسی قیادت کے بہت سارے دعویدار، مذہب اور نظریات کے تعلق سے بعض ٹھیکہ دار ٹائپ کی حامل شخصیات، بعض مخصوص فکر کے حامل کاروباری اور تجارتی شخصیات، سول سوسائٹی کے نام پر بعض شر پھیلانے، شر کی آبیاری کرنے والے اور اسی شر کے راستے اپنے حقیر مفادات کے حصول اور تکمیل کو یقینی بنانے والے سوداگر کا کرداراداکررہے ہیں بھی شامل ہیں کشمیرکو بکائو مال تصور کررہے ہیں۔
یہ سارے عناصر ایک جگہ جمع ہوتے گئے تو پہلی کیجولٹی گھر ،خاندان اور تعلق بن گیا۔ دوسری کیجولٹی بندوق کے کلچر کی آمد اور کسی حد تک اس کی قبولیت کے نتیجہ میںمعاشرتی اور گھریلو اقدار اور جذبہ اخوت کی پامالی کی صورت میں ہوئی۔ تشدد، مختلف نوعیت کے جرائم، منشیات کا بے دریغ استعمال او اس کی مارکیٹنگ، سماجی بدعات، رسومات بد کی ترویج اور قبولیت، چادر اور چاردیواری کا تقدس کی پامالیاں، اسی طرز فکر اور طرز اپروچ کے بطن سے جنم لیتی گئیں، نتیجہ یہ کہ آج سارا کشمیر یہاں تک کہ اس کی روح تک مجروح اور چھلنی نظرآرہا ہے۔
رشتوں کی مٹھاس ختم ہوتی جارہی ہے کم وبیش ہر گھرانہ کسی نہ کسی اعتبار سے فساد زدہ، افلاس زدہ، بے روح اور میدان جنگ کا سا نقشہ نظرآرہاہے۔ مارپیٹ، بات بات پر چھرا زنی، اثاثوں اور املاک کی تقسیم اور حصول پر جھگڑے روزمرہ معمولات کا حصہ بن چکے ہیں، اب ڈل جھیل کی گہرائیوں سے اُبھر کر گھریلو تشدد کی ماری بیوی اپنے دو بچوں کی لاشوں کے ساتھ تیرتی دکھائی دیتی ہے تو نہ آسمان ابر آلودہ ہوجاتا ہے ، نہ دن کا اُجالا گہن زدہ ہوجاتاہے اور نہ ہی دیکھنے والی کوئی آنکھ نم نظرآتی ہے۔
دولت کا حصول نہ گناہ ہے اور نہ جرم لیکن دولت کا تصرفہ نام ونمود کی خاطر گناہ عظیم بھی ہے اور سماجی جرم بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وَکْلْوا وَاشرَبْوا وَلَا تْسرِفْوا‘‘یعنیکھائو پیو مگر اصراف نہ کرو۔ کشمیر کا نودولتی طبقہ اللہ تعالیٰ کے اس مخصوص ارشاد کو نظرانداز کرکے کسی اہمیت یا مفہوم کا حامل نہیں سمجھ رہا ہے۔ وہ اپنے لئے دولت کے اس حصول کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور زور بازو کا کرشمہ اور ثمرہ قراردیتا ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات کے حوالہ سے نمائشی ذہنیت کا جو عمل دخل اب نودولتی طبقہ میںسرائیت کرچکا ہے اور ہنوز سرائیت کرتا جارہا ہے وہ اب معاشرے کیلئے بحیثیت مجموعی گھرانوں، خاندانوں اور معاشرے کے لئے سوہاں روح اور سم قاتل بن چکا ہے۔ جہیز کے نام پر لین دین اور بدعات کا چلن کچھ کیلئے اب ایمان کی جگہ لے چکا ہے ۔ کسی کے گھرمیں کتا اور بلی بھی پل رہی ہو تو سونا کی زنجیر اس کیلئے بھی وقف اور سماجی سطح پر معذزیت کی ایک علامت تصور کی جارہی ہے۔
نکاح کو مقدس بھی مانا جاتا رہا ہے اور گھریلو اور معاشرتی سطح کے حوالہ سے اہمیت اور افادیت کے تمام تر پہلوئوں کے اعتبار سے سکون قلب اور سکون معاشرہ بھی خیال کیا جاتارہا ہے لیکن کشمیر اب نکاح کے تقدس اور مقصدیت کی دیواروں سے باہر نکل رہا ہے بلکہ نکالا جارہاہے ، خلع اور طلاق سپر سونک جہازوں کی رفتار کی مانند واقع ہورہے ہیں۔ اس تعلق سے وہ نکاح بھی کسی نہ کسی حوالہ سے منفی طور سے اثرانداز ہورہے ہیں جو کشمیر کی سرحدی حدود سے باہر غیر ممالک میںرہائش کے تعلق سے ماضی اور ماضی قریب میں وقوع ہوئے ہیں۔
بے شک کہاجاسکتا ہے کہ کشمیرکا یہ سارا منظر نامہ تکلیف دہ بھی ہے اور روح فرسا بھی ہے لیکن اُس اُبھر رہی صورتحال کو اصلی کشمیر میں واپس لانے کیلئے کوئی راستہ نظرنہیں آرہا ہے۔ البتہ مساجد میںواعظ وتبلیغ کی مجالس میں مقررین حضرات کشمیرکی بگڑتی اس صورتحال کا حوالہ ضرور دے رہے ہیں اور اپنے سننے والوں سے باربار تلقین کررہے ہیں کہ وہ بدعات کا قلع قمع کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوجائیں،منشیات کا بڑھتا استعمال روکنے کیلئے اپنے گھروں سے اقدامات کا آغاز کریں، معاشرتی سطح پر بیداری لانے اور رائے عامہ کو منظم کرنے کیلئے ایک صف میں خود کو کھڑا کریں لیکن کہنے اور کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
بربادی اور اخلاقی انحطاط جس قوم میں سرائیت کرچکا ہو، روشن ضمیری اور اعتدال پسندی کی جگہ ضمیر فروشی نے غلبہ حاصل کرلیا ہو اُس کی واپسی ممکن نہیں بلکہ ایسے قوموں کی بربادی کے قصے اور کہانیاں پھر آسمان وزمین پر لکھی بھی جاتی ہیں اور پڑھنے کو بھی مل جاتی ہیں۔ جس قوم کی سیاسی وغیر سیاسی قیادت کے دعویدار۷x۲۴ جھوٹ ، کورپشن اور معذرت خواہی سے عبارت عمارتیں تعمیرکرنے میں قدر مشترک رکھتی ہوں اور جس قوم کی مذہبی قیادت کے دعویدار قوم کو مسلکی نظریات اور مسلکی عقیدوں میںبانٹنے کا درس دے کر انتشار کا باعث بن رہے ہوں اُس قوم کی اپنے اصل پر واپسی قدرے مشکل ہے۔