نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے انڈر گریجویٹ میڈیکل اور دیگر کورسز میں داخلے سے متعلق قومی اہلیت کم داخلہ ٹیسٹ (این ای ای ٹی یوجی)۲۰۲۴کے سوالیہ پیپر کو امتحان شروع ہونے سے پہلے عام ہونے کی بات قبول کی گئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ دوبارہ امتحان اس ٹھوس بنیادوں پر کرایا جائے کہ پورا امتحان متاثر ہوا ہے ۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا، جو سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے ، نے پٹنہ اور ہزاری باغ میں سوالیہ پرچوں کے عام ہونے کے واقعہ کو قبول کیا اور کہا کہ اس معاملے میں مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) کارروائی کر رہی ہے ۔ انہوں نے واضح طور پر اس معاملے میں کسی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی تردید کی۔
بنچ نے مرکزی حکومت، امتحانات کا انعقاد کرنے والی باڈی نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے ) اور کئی عرضیوں کے وکیلوں کے دلائل کو تفصیل سے سنا۔ اس کے بعد بنچ نے تمام مراکز کے الگ الگ امتحانی نتائج کا اعلان ہفتہ کو ۱۲بجے تک کرنے کا حکم دیا۔
بنچ نے کہا’’یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سوالیہ پرچے پٹنہ اور ہزاری باغ میں عام کیے گئے تھے…سوالیہ پرچے گردش کیے گئے تھے ۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ صرف ان مراکز تک محدود تھا یا بڑے پیمانے پر‘‘۔
سپریم کورٹ نے کہا’’طلبا مشکل میں ہیں کیونکہ انہیں نتائج کا علم نہیں ہے ۔ ہمیں مرکز کے حساب سے نمبروں کا نمونہ دیکھنا چاہیے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ امتحان میں شامل ہونے والے طلباء کی شناخت ظاہر کیے بغیر تمام نتائج کا اعلان کیا جائے ‘‘۔
تحقیقات کے بارے میں بنچ نے کہا’’فی الحال تحقیقات چل رہی ہے ، اگر سی بی آئی نے (عدالت کو) جو کچھ کہا وہ عام ہو جاتا ہے ، تو تحقیقات پر اثر پڑے گا‘‘۔
بنچ نے کہا کہ وہ پیر کو سی بی آئی اور پٹنہ پولس کی تحقیقات کے معاملے کو دیکھے گی۔
بنچ نے درخواست گزاروں میں سے ایک کے وکیل سے یہ بھی کہا’’آپ کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ سوالیہ پرچہ عام ہونے کا واقعہ اتنا منظم تھا کہ اس نے پورے امتحانی نظام کو متاثر کیا تاکہ پورے امتحان کی منسوخی کی ضمانت دی جا سکے ‘‘۔
بنچ نے وکیل سے پوچھا’’اگر ہم آپ کی تفصیلی گذارشات کو قبول کرتے ہیں، تو ہم آپ سے مدد چاہتے ہیں کہ کن نکات کی تفتیش ہونی چاہیے ‘‘۔
اس پر متعلقہ وکیل نے کہا’’این ٹی اے نے مکمل نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے ، جب کہ یوپی ایس سی تمام امیدواروں کے نتائج کا اعلان کرتی ہے ، کم از کم این ٹی اے کو ایک لاکھ لوگوں کے نتائج کا اعلان کرنا چاہیے جنہیں داخلہ ملے گا‘‘۔
امتحانی نتائج کے اعلان کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے زور دیا کہ دوبارہ امتحان اس ٹھوس بنیاد پر کرایا جائے کہ پورا امتحان متاثر ہوا ہے ۔
وکیل نے یہ بھی دلیل دی کہ آئی آئی ٹی مدراس کا ۲۳لاکھ سے زیادہ طلباء کی جانچ پر مبنی تجزیہ قابل اعتبار نہیں ہے ۔ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے والے ایک لاکھ آٹھ ہزار امیدواروں کی بنیاد پر ایسا کیا جانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ آئی آئی ٹی مدراس کی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے (آئی آئی ٹی مدراس) ڈائریکٹر این ٹی اے کی گورننگ باڈی کے رکن ہیں۔
بنچ نے عرضی گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ نریندر ہڈا کی کونسلنگ پر روک لگانے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ بنچ نے کہا’’نہیں، ابھی نہیں۔ ہم اس معاملے کی سماعت پیر۲۲جولائی کو کریں گے ، کیونکہ کونسلنگ۲۴جولائی یا تیسرے ہفتے میں ہے اور یہ ایک ماہ یا اس سے زیادہ چل سکتی ہے ‘‘۔
جسٹس چندرچوڑ کی بنچ نے ابتدائی طور پر این ٹی اے سے اپیل کی، جو این ای ای ٹی یوجی کا انعقاد کرنے والی تنظیم ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جمعہ کی شام ۵بجے تک امتحانی نتائج کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کریں۔ اس کے بعد این ٹی اے کے وکیل نے عدالت سے امتحان کے نتائج کے اعلان کے لیے اضافی وقت دینے کی درخواست کی۔ عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ امتحان کے نتائج ہفتہ کی دوپہر ۱۲بجے تک اپ لوڈ کر دئیے جائیں۔
۱۱جولائی کو سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت ۱۸جولائی تک ملتوی کر دی تھی۔