واشنگٹن//
غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے مذاکرات میں پیش رفت کی بات کے بعد خاص طور پر قیدیوں کے تبادلے پر حماس کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے اسرائیلی وفد کو دوحہ بھیجنے کے ساتھ ہی امریکہ نے تل ابیب پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔
امریکہ کی کوشش ہے کہ تل ابیب پر کسی ایسے حل تک پہنچنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے جس سے نو ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔
امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کو ایک فون کال میں بتایا حماس کے زیر حراست قیدیوں کی جان بچانے کا وقت آگیا ہے۔
اخبار کے مطابق لڑائی کو روکنا بائیڈن کے لیے ان کی خراب سیاسی کارکردگی کے بعد ایک اہم سیاسی فتح” ہوگی۔ کیونکہ حال ہی میں بائیڈن کی سیاسی کارکردگی کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے میں تباہ کن قرار دیا گیا تھا۔
ایک سینیر امریکی اہلکار نے جمعرات کو کہا تھا کہ "حماس کی طرف سے پیش کردہ تجویز میں بہت اہم پیش رفت شامل ہے”۔
انہوں نے کہا کہ "ہم قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ نیتن یاہو پر منحصر ہے”۔
انہوں نے کہا کہ "غزہ پر ایک معاہدے تک پہنچنے کا ایک حقیقی موقع ہے موجود ہے”۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کو مطلع کیا کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ قیدیوں کی بات چیت کے لیے ایک وفد قطر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جبکہ العربیہ/الحدث کے نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ موساد کے سربراہ اور اسرائیلی وفد قطر کے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے دوحہ جائیں گے۔