سپریم کورٹ کی حالیہ رولنگ کے بعد ایسا نظرآرہا ہے کہ جیسے کچھ سیاسی جماعتوں کے اندر نئی روح سرائیت کرتی جارہی ہے جبکہ کچھ جماعتوں کو جیسے سانپ سونگ رہا ہے البتہ کچھ بے شرمی اور سیاسی بداخلاقی پر بدستور بضد نظرآرہی ہے۔ فی الحال ان سبھی کی درجہ بندی سے گریز کرتے ہوئے کانگریس کے بارے میں جموںمیں منعقدہ اُس پارٹی کی پولٹیکل افیرس کمیٹی کی میٹنگ میں پاس دو قرار دادوں کے مندرجات کے تعلق سے بات کرنے کی کچھ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
کوئی کسی زمانے میںکہہ گیا کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ کسی نے کسی معاملے کے حوالہ سے کہا تھا کہ ’’بڑی بے شرمی کے ساتھ تیرے کو چے سے نکلے‘‘، تو کوئی بے شرمی، ڈھٹائی پن اور اخلاقیات سے گری اپنے اندر انداز فکر اور طرزعمل کو اپنا سیاسی گہنا تصور کرکے سینہ تان بھی رہا ہے اور اُس پر فخر بھی کررہاہے۔
پردیش کانگریس کی پولیٹکل افیرس کمیٹی نے جو دو قراردادیں منظور کی ہیںان میں سے ایک کاتعلق بقول ان کے سیاست سے ہے جبکہ دوسری قرارداد کا تعلق معاشی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان میں سے کیا سیاست ہے اور کیا معیشت ہے، جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں ان میںسے ایک یہ کہ مرکزی حکومت نے خواتین کی ۳۳؍فیصد ریزرویشن کا جوخاکہ پیش کیا ہے کو عملی جامہ پہنانے کی بات تو رکھی گئی ہے لیکن اس کیوٹ(Cavit) کے ساتھ کہ یہ ریزوریشن تو دراصل کانگریس پارٹی کا منصوبہ تھا۔
دوسرا مطالبہ جموں وکشمیر اسمبلی کیلئے الیکشن اور ریاستی درجہ کی بحالی کا ہے تاکہ حکومت کی تشکیل کا راستہ ہموار ہوسکے۔ تیسرا مطالبہ ملازمتوں کے حوالہ سے ضمانت سے ہے۔ چوتھا پنڈت مائیگرنٹوں کو مل رہے پیکیج پر نظر ثانی کے مطالبے سے ہے۔پانچواں مطالبہ سرکری محکموں میں بھرتی عمل کو فاسٹ ٹریک خطوط پر یقینی بنانے جبکہ بھرتی سکینڈلوں کی تحقیقات کیلئے بقول کانگریس کے غیر جانبدارانہ کمیشن قائم کیا جاناچاہئے۔
بظاہر ان میںکوئی قباحت نہیں لیکن ان میں نیا پن کیا ہے جس کو سیاسی قرارداد اور معاشی قرارداد کا جامہ پہنایاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قراردادوں کی آڑمیں جو کچھ کیا گیا ہے اس کا تعلق بحیثیت پارٹی کے ناکامیوں اور اپنے سابق سیاہیوں پر پردہ ڈالنے کی سعی لاحاصل سے ہے۔ خواتین کی ریزرویشن کانگریس کا منصوبہ تھا لیکن عملی جامہ نہیںپہنایا، اب جبکہ اس تعلق سے قانون بن گیا تو انگلی کوکاٹ دے کر ہم بھی شہیدوں میںشامل والا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسمبلی الیکشن اور ریاستی درجہ کی بحالی یوٹی کی ہرسیاسی پارٹی کا چار سال سے مطالبہ ہے اور اب سپریم کورٹ نے اس تعلق سے مدت کا تعین بھی کیا ہے۔ مطالبہ کا اعادہ غلط نہیںلیکن جہاں دوسری کئی پارٹیوں اور ماہرین قانون نے اس مدت جس کا تعین سپریم کورٹ نے کیا ہے کی اعتباریت یا عملی جامہ پہنانے کی سمت میں پہل اور اقدامات کے بارے میںکچھ خدشات ظاہر کئے ہیں پارٹی کی سیاسی معاملات سے متعلق کمیٹی نے خاموشی کا راستہ اختیار کیا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس سے قبل تاثر دیا جاتارہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیاجائے گا اور اس کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کو بھی زیر بحث لایاجاسکتاہے لیکن اجلاس کے بعد جو کچھ بھی اطلاع یا خبر کی صورت میں باہرآیا اُس میںایسا کچھ بھی شامل نہیں البتہ کچھ غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق پارٹی نے دفعہ ۳۷۱؍ کے دائرے میں جموں وکشمیر کو لانے کی رائے دی ہے تاکہ جوسہولیات اس مخصوص دفعہ کے تحت شمال مشرقی ریاستوںوغیرہ کو حاصل ہیں ویسی ہی سہولیات ؍تحفظات جموں وکشمیر کے بسکینوں کو بھی حاصل ہوں۔
بُنیادی بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی کو جموںوکشمیر کے تعلق سے نہ کچھ کہنے کو ہے اور نہ یہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے۔ برعکس اس کے جموںوکشمیر جس صورتحال میںمبتلا ہوا اس کی بُنیاد کانگریس پارٹی اور مرکز میں قائم کانگریس کی حکومتیں ڈالتی رہی ۔ جس طرح پنجاب میںبھندراں والا کا جنم داتا اس پارٹی کو مانا جاتارہاہے اسی طرح کشمیرمیں ۸۹ء کی بُنیاد کیلئے اس پارٹی کے ۸۷ء کی جمہوریت کے کھلے عام قتل کو مانا جارہاہے۔
جس پارٹی اور جس پارٹی کی حکومت کے سر جموںوکشمیر میںپچاس سال کے دوران ایک بھی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کا ریکارڈ نہیںبلکہ جو پارٹی جمہوریت کا جنازہ خود اپنے کاندھوں پر رکھ کر نکالتی رہی، جس پارٹی اور حکومت کا ریکارڈ جموںوکشمیر کیلئے حکومت سازی، میڈان دہلی، سے عبارت رہا ہے وہی پارٹی اسمبلی الیکشن ، پنچایتی اور دیگر اداروں کیلئے الیکشن کا مطالبہ کرنے میںذرہ بھر بھی شرم محسوس نہیںکرتی۔ فراڈ اور دھاندلیوں سے عبارت وہ الیکشن کرانے والے بیشتر بیروکریٹ دُنیا سے چلے گئے ہیںلیکن چند ایک ابھی بھی حیات ہیں، تاہم یہ دوسری بات ہے کہ وہ فی الوقت کانگریس کے خیمے میں نہیں بلکہ کسی اور سیاسی خیمے سے وابستہ ہیں۔
سیاسی منظرنامے کے تعلق سے تنقیدی آوازوں یا تنقیدی چہروں کو سسٹم میں اپنانے یا سسٹم کا حصہ بنانے کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان کی درپردہ دوسرے طریقوں سے پرورش کی گئی اور فنڈنگ کی جاتی رہی ، جب جب بھی دیکھا کہ لوگ امن کے راستے پر گامزن ہیں تو رخنہ انداز ہوکر کھبی’’ بک آف نالیج‘‘ جیسے فتنوں کو برپا کرایاگیا تو کبھی کالجوں سے چن کر سنگ بازوں کی بریگیڈوں کو جنم دے کر سڑکوں پر لایاجاتارہا۔ لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ پارٹی کی سیاسی حماقتوں اور سیاہ کاریوں کا ہر دورمیں خمیازہ کشمیر بھگتتا رہا جبکہ سرحد پار موقعہ غنیمت جان کر بلکہ حالات کو اپنے لئے آکسیجن سمجھ کر صورتحال کا فائدہ اُٹھاتی رہی۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس سنجے کول نے اپنی علیحدہ رولنگ میں جموںوکشمیر کیلئے جس ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی ہے وہ کمیشن جب بھی قائم ہوگا توا س کی تحقیقات اور کارروائی کیلئے لازم ہے کہ کٹ آف ڈیٹ ۱۹۵۲ء ہونا چاہئے نہ کہ ۱۹۸۰ء جیسا کہ مسٹر جسٹس نے از خود کٹ آف ڈیٹ تجویز کیا ہے کیونکہ جمہوریت کے قتل کی بُنیاد ۵۲ء میںڈالی گئی، لوگوں کے جمہوری ، سیاسی، بُنیادی حقوق میڈ ان دہلی کی کٹ پتلی حکومتوں کی وساطت سے چھینے جاتے رہے اور جو وعدے اور یقین دہانیاں دی گئی تھی ان کی عہد شکنیوں کا بوجھ بھی اسی پارٹی کی گردن پر ہے۔