منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن 

جسٹس کول کی تجویز کا خیرمقدم

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-12-14
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

دفعہ ۳۷۰؍ اور خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے خلاف دائر پٹیشنوں کی سماعت کرنے والے ۵؍رکنی بینچ میں شامل جج جسٹس سنجے کشن کول جن کا تعلق کشمیر سے ہے نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے علاوہ اپنے ایک علیحدہ فیصلے میں ’’ٹروتھ اینڈ ری کنلیشن کمیشن‘ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے جو ۱۹۸۰ء کے آس پاس پیش آمدہ حالات واقعات بشمول انسانی حقوق کی پامالیوں جن کا ارتکاب سٹیٹ اور نان سٹیٹ افراد نے کیا کی تحقیقات کرے گا۔ اس تعلق سے جج صاحب نے اپنے طور سے کچھ معاملات کی نشاندہی کی ہے جن کا تعلق ۸۰ء کی دہائی کے پیش آمدہ معاملات، ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کے حالات، ۱۹۸۷ء کے الیکشن، ملی ٹنسی کا عروج جس کے نتیجہ میں کشمیر کا صوفی ازم اور شیواز م پر ملی ٹنسی کا حاوی ہونا خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
جج موصوف کی تجویز نئی نہیں بلکہ کشمیر کے کچھ سیاسی اور سنجیدہ عوامی حلقے ماضی اور ماضی قریب  میں ایسے کسی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جن میں نیشنل کانفرنس سے وابستہ بحیثیت وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ لیکن کمیشن کی تشکیل کے مطالبے، ضرورت یا رائے کو کسی ذمہ دار حلقے نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔
البتہ جسٹس کول نے بُنیادی اشو سے ہٹ کر اس حوالہ سے علیحدہ فیصلہ صادر کیوں کیا یہ واضح نہیں اور نہ ہی ابھی تک کسی کی جانب سے اس علیحدہ فیصلہ پر کوئی ردعمل سامنے آیا ہے البتہ اب جبکہ جج موصوف نے پہل کی ہے اس پہل کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیاجانا چاہئے اور جتنی جلد ممکن ہوسکے ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن تشکیل دینے کی سمت میں اقدامات کئے جانے چاہئے۔ لیکن جسٹس کول نے ۱۹۸۰ء کو بُنیاد کیوں قرار دیا یا تجویز پیش کی یہ واضح نہیں کیونکہ بادی النظرمیں معاملات یا اختلافات کی بُنیاد ۱۹۸۰ء میں نہیں بلکہ اس کی تاریخ ۱۹۵۲ء کے اصل واقعات اور معاملات میں پیوست سمجھے جاتے ہیں۔
۱۹۴۷ء کے الحاق کے بعد ۵۲ء تک کشمیرکے طول وارض میںکسی بھی کونے سے الحاق کے فیصلے کو چیلنج لے کر کوئی سڑک پر نہیں آیا۔ کشمیر نے اپنی لیڈر شپ کے الحاق کے فیصلے پر نہ صرف مہر تصدیق ثبت کردی بلکہ اس الحاق کی بُنیاد خود اپنے ہاتھوں یہ کہکر اور اس نعرے کے ساتھ رکھی کہ ’حملہ آور خبردار…ہم کشمیری ہیں تیار‘۔ جہاں تک دو قومی نظریہ جس کی بُنیاد پر ملک تقسیم ہوا کو بھی مسترد کردیا۔ تقسیم کے نتیجہ میں سرحد کے آر پار لاکھوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن کشمیر پرامن رہا، بھائی چارا کا گہوارہ رہا جس کو دیکھ کر مہاتما گاندھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’ مجھے صرف کشمیر سے اُمید کی کرن دکھائی دے رہی ہیـ‘۔
جسٹس سنجے کول کا اس حوالہ سے شکریہ ادا نہ کرنا ناانصافی اور ناشکری ہوگی کہ انہوںنے انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کو مجوزہ کمیشن کی طرف سے تحقیقات کو بُنیاد بناکر جوڑ دیا۔اب سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق کیا ہیں، ان کی پامالیوں کا پیمانہ کیا ہے اور کون سے معاملات یا واقعات کوانسانی حقوق کی پامالیاں قرار دیاجاسکتا ہے۔یہ ایک وسیع معاملہ ہے جس کا تعین مجوزہ کمیشن کی تحقیقات سے قبل ہی ہونا چاہئے۔
اگر بالفرض انسانی حقوق کی پامالی میں جمہوری حقوق کی ادائیگی سے شہری کو محروم کرکے اور جمہوریت ہی کے نام پر الیکشن کرانے کا پھر ڈھونگ رچاکر ۷۵ اسمبلی حلقوں کے نتائج کو بلا مقابلہ کامیاب قرار دیا جاتا رہے، یا میدان میں اُترے اُمیدواروں کی اکثریت کے کاغذات نامزدگیوں کو مسترد کے خانے کی نذر کئے جانے کا راستہ اختیار کرکے پھر یہ دعویٰ مسلسل طور سے کیاجاتا رہے کہ کشمیر میں الیکشن ہوئے، لوگوںنے ان الیکشن کی وساطت سے اپنی حق رائے دہی کا والہانہ استعمال کیا تو یہ معاملہ سنگین انسانی حقوق کی ہی پامالیوں کا نہیں ٹھہرتا بلکہ جمہوری مزاج ، جمہوری سیٹ اپ اور جمہوریت کے نام پر ایک ایسا دھبہ ہے جس کو لاکھ بار دھوڈالنے سے بھی مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس مخصوص تناظرمیں مجوزہ کمیشن جب بھی تشکیل پاتا ہے تو اس کے لئے لازم بن جائے گا کہ اسی معاملے سے اپنی تحقیقات کی بُنیاد رکھ کر آغاز کرے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس نے کشمیر میں سیاسی عدم استحکام، بے چینی، کورپشن اور بدعنوانیوں کی ایک ایسی مضبوط بُنیاد رکھدی کہ آج بھی لاکھ کوششوں اور جتن کے باوصف یہ بدعتیں کشمیر کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں۔
اس نوعیت کے فراڈ اور غیر منصفانہ الیکشنوں کے اہتمام وانعقاد کے بطن سے بہت سارے دوسرے پیچیدہ اور حساس نوعیت کے معاملات بھی بتدریج جنم پاتے رہے۔ ان سنگین نوعیت کے معاملات میںعسکریت کا جنم خاص طور سے قابل ذکر ہے جس کا تذکرہ خود جسٹس سنجے کول صاحب نے بھی یہ کہکر کیا ہے کہ ۱۹۸۷ء کے الیکشن کو لے کر الزامات اور جوابی الزامات بھی سامنے آئے۔ جسٹس کول نے ۸۷ء کے الیکشن کا جو حوالہ دیا ہے اس کا تعلق تلخ تاریخی اور زمینی حقیقت سے ہے۔ جو الیکشن میدان میں تھے انہیں شکست خوردہ ڈکلیئر کیاگیا، صرف اسی پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ کریک ڈائون کا سہارا لے کر انہیں چن چن کر گرفتار کرکے پولیس تھانوں میں سلاخوں کے پیچھے ڈالدیاگیا،ان کے والدین تک کو گرفتار کرکے ان کے سامنے مارپیٹ اور ازیتوں سے دوچار کیاگیا۔ اس مارپیٹ کی پویس تھانوں میں نگرانی اور قیادت کرنے والے کون تھے جو اُس دور کے فراڈ الیکشن کے بعد وزارتی عہدوں پر بھی فائز ہوئے کی شناخت چھپی نہیں ہے۔ جنہیں پولیس تھانوں میںاُس دور کی سیاسی قیادت کے دعویداروں کی موجودگی میں نشانہ بنایاگیا انہی کے ہاتھوں کشمیر میںعسکریت کی بُنیاد پڑی۔
سچ بلکہ تلخ سچ یہی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مختلف حلقے اس بارے میں آج کی تاریخ میں نئی اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کچھ نئی کہانیاں اور قصوں کے ساتھ جلوہ گر ہوکر اپنے اُس کردار ، سفاکیت اوراقتدار کی ہوس گیری پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریںگے۔ جسٹس سنجے کول کا کہنا درست ہے کہ اُس دور کے جنمے آج کی تاریخ میں ۳۵؍سال یا اوپر کی ہوگی، حالات واقعات اور معاملات ان کے ذہن میں موجود ہوگی البتہ تاخیر پھر بے نتیجہ تحقیقات پر ہی منتج ہوسکتی ہے۔
سارے معاملات اور واقعات کی تحقیقات ہر ایک کی خواہش ہے لیکن جو بھی تحقیقات ہوگی اُس کو لے کر انتقام، بدلہ یا کسی اور جذبہ سے کام لینے کا منشا نہیں ہونا چاہئے بلکہ مفاہمت، بقا ئے باہمی اور ہر ایک کی عزت نفس اور اقدار جو کشمیرکی مشترکہ اساس ہے کو ایک نیا احترام اور جذبہ عطاکرنے کی ضرورت تصور کیاجاناچاہئے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

عمرعبداللہ کا اعتراف

Next Post

آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹسٹ میچ کے لئے پاکستانی ٹیم کا اعلان

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
پاک آسٹریلیا سیریز، کوئی بریٹ لی کو بھی بُلا لے

آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹسٹ میچ کے لئے پاکستانی ٹیم کا اعلان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.