کشمیر کی سیاسی اُفق اتنی دھندلی نہیں تھی جتنی دھندلی آج محسوس بھی کی جارہی ہے اور نظر بھی آرہی ہے۔ سیاسی اُفق سے وابستہ ہر سیاست کار کشمیر پر سیاست کر کر کے اب ماہر پیشہ ور اور فن کار بن چکا ہے۔ اس رنگ وروپ کے سیاست کار کم وبیش ہر سیاسی پارٹی میںموجود ہیںچاہئے وہ سیاسی پارٹیاں گرینڈ اولڈ پارٹی کا درجہ رکھتی ہے یا جو عصر حاضر کے حالات کے بطن سے جنم پاتی رہی ہیں۔
سیاسی پارٹیوں اور ان سے واستہ پیشہ ور سیاست کاروں کا حصول اقتدار کی تڑپ یا چاہت کوئی مجرمانہ فعل ہے اور نہ کوئی گناہ یا شرک البتہ اس مقصد کو پانے کیلئے یہ لوگ جو زبان استعمال کرکے دعویٰ کررہے ہیں ان میں سے ۹۰؍فیصد دعویٰ جھوٹ، ریاکاری، فریبی سیاست اور چھل سے عبارت ہے جبکہ اپنے سیاسی حریفوں کیلئے جو زبان استعمال کی جارہی ہے اُس میں تعصب، نفرت، حسد اور سیاسی کمینہ پن کے پہلو نمایاں طور سے محسوس ہورہے ہیں۔
کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں کی گود میں فی الوقت بحیثیت لیڈر جو لوگ بیٹھے نظرآرہے ہیں وہ کسی نہ کسی دورمیں کانگریس، نیشنل کانفرنس اور ۲۰؍سال قبل تشکیل دی گئی پی ڈی پی کا ہی حصہ رہے ہیں۔ کوئی وزیررہا ہے، کوئی ممبر قانون سازیہ رہا ہے، کوئی کسی ادارے کا سربراہ نامزد ہوکر مراعات حاصل کرتا رہا ہے جبکہ ان میں سے اکثر کی تعداد وہ ہے جو ان پارٹیوں سے وابستگی کی بُنیاد پر اور ماضی میں قانون ساز رہ کر مختلف نوعیت کی مراعات اور پنشن وصول کررہے ہیں۔
ان سب کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ آج کی سیاست کے منظرنامہ کے مطیع ماضی کی سیاست اور اُس سیاست کے کرتا دھرتا ئوں کے بقول ان کے گناہوں، غلط فیصلوں، لوگوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کے ارتکاب کے زینوں پر چڑھتے چڑھتے اقتدار کی دیلیز یں عبور کرنے اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیان ماضی میں اتحاد کے بندھنوں سے وابستگی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ جن ادوارمیں یہ سب کچھ ہوتا رہا اُن ادوار میںیہ لوگ خود انہیں پارٹیوں سے وابستہ تھے اور مختلف عہدوں کی وساطت سے سرکاری خزانہ کو اپنی لونڈی اور باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر وہ سب کچھ حاصل کرتے رہے جس کے یہ اہل اور مستحق بھی نہیں تھے۔
آج کی تاریخ میں کئے جارہے بلند وبانگ دعویٰ ممکن ہے کسی حد تک نوجوان پود کی توجہ مبذول تو کرسکتے ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے ماضی باالخصوص ماضی میں انہی سیاست کاروں کی وابستگیوں ، رول اور کردار، تقریروں وبیانات، تجزیوں وتبصروں اور وقت وقت کی سیاسی ضرورتوں اور سب سے بڑھ کر وقت کے ایکو سسٹم کے تناظرمیں آج کے یہ بلند بانگ دعویٰ کرنے سے پردہ ڈالا جاسکتا ہے؟ یہ سیاست کار اس نوعیت کے چونچلے اور زبان استعمال کرکے یہ فرض کررہے ہیں کہ وہ اپنے ان اختراعی دعوئوں کے بل پر اپنے ماضی کو چھپانے میں کامیاب ہوںگے وہیں آج کی تاریخ میں آج کی نوجوان نسل کے سامنے خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرسکتے ہیں۔
کشمیرنشین کون سیاستدان ایسا ہے جو اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ مخلص ہے، دودھ کا دھلا ہے، عوام کی عزت وآبرو او رچار دیواری کا تقدس کا محافظ ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کے آئینی، لسانی ، تہذیبی ،ثقافتی ،سیاسی اور بشری حقوق کی محافظت کی راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا، کیا وہ راشن گھاٹ کے منشی جن کی شبیہ کے آگے سوالیہ لگے رہے اور آج سیاسی پارٹیوں کی صف میں بیٹھے نظرآرہے ہیں اور عوام کی عزت وآبرو اور آئینی حقوق کی محافظت کا دعویٰ کررہے ہے قابل اعتبار ہیں؟ کیا وہ عسکریت پسند جنہوںنے جموں وکشمیر کی ملک سے علیحدگی او ر پاکستان کے پلیٹ میں کشمیرکو رکھ کر حلف اُٹھاکر بندوق اُٹھائی اور بحیثیت عسکریت پسند وہ سب کچھ کیا جس کی یاد آج بھی رونگٹے کھڑا کردیتی ہے آج کی تاریخ میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی صف میں بیٹھ کر کشمیرکی محافظت اور کشمیریوں کے حقوق کی پاسبانی اور رکھوالی کا دعویٰ کررہے ہیں اور اپنے اس دعویٰ کے بل پر اپنے ماضی پر پردہ ڈال کر سمجھتے ہیں کہ وہ دودھ کا دھلا بن گئے؟
اور کیا وہ سیاست دان جو نظریاتی اعتبار سے منفرد نظریہ رکھتے ہوئے ’حوالہ ‘ سے وابستہ تھا اوراس جرم میں گرفتار بھی ہوا آج ایک نئے روپ میںسیاسی لیڈر کی حیثیت سے جلوہ گر ہوکر عوام کو سبز سے سبز تر باغ دکھا کر خود کو ایک نئے سیاسی مسیحا کے طور پیش کرنے کی کوشش کررہاہے۔
کشمیریوں کی بحیثیت مجموعی غلطی یہ ہے کہ وہ ہردورمیں سیاست دانوں کے بہکائوے میں آتے رہے ، ان کے پاس جو بھی سیاست دان آیا وہ اُس پر اعتبار کرتے رہے، اس کے وعدوں پر اعتبار کیا، اس کے نعروں کو اپنا نعرہ تصورکیا، لیکن غلط ثابت ہونے کے باوجود اس نے کسی سیاستدان سے سوال نہیں کیا، اس سے جواب نہیں مانگا، خود ظلم کی چکی میں پستا رہا لیکن سیاست دان کی راہ میں حائل اگر کوئی پتھر دیکھا تو جذبات میں آکر اُس پتھر کو اس کے راستے سے ہٹایا۔
اسی کوکہتے ہیں ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
کشمیر نے سیاست دان کے ترک موالات کا معاشرتی زخم بھی سہا، میوہ باغوں اور پھل دار درختوں کوتہہ وتیغ ہوتے بھی دیکھا ، رائے شماری کا نعرہ بلند کرنیو الوں کا ساتھ دے کر سٹیٹ کے وہ سارے زخم سہے اور ظلم وجبر وزیادتیوں کے پنجوں تلے اپنے بہت سارے لخت جگروں کو دم توڑتے بھی دیکھا، خود مختاری اور سیلف رول کے نعرے دینے والوں کی آواز پر بھی لبیک کہی، قائدثانی ، بلبل کشمیر، فخر کشمیراور چیف کمانڈروں ،ہر گلی کوچے کے ایریا کمانڈروں جبکہ تن ، من دھن کی اصطلاح سے بے خبر اور سراپا جاہل لکھاریوں کے ڈکٹیشن بھی لئے، لیکن حاصل تباہی، بربادی، اقتصادی زبوں حالی ، کشمیر یت سے محرومی اور تمام ترحقوق سے ہاتھ دھونے تک کی نوبت کے سوا کشمیر اور کشمیری عوام کو کیا ملا…؟
ہم کسی مخصوص سیاسی فکر کے حامل کے طرفدار ہیں اور نہ مخالف، کشمیر آج کی تاریخ میں جس چوراہے پر لاغر اور بے بسی کی حالت میں کھڑا نظرآرہاہے بدقسمتی یہ ہے کہ بلند بانگ دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں کو وہ کیوں نہیں دکھتا اور اگر دکھتا ہے تو وہ کیوں دانستہ طور سے اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لئے نظر انداز کررہے ہیں ، کشمیر اب ایک نیا سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اقدار کے تحفظ اور مجموعی طور سے ہمہ جہت ترقی کیلئے ایک واضح، ٹھوس اور قابل عمل روڈ میپ کا تقاضہ کررہاہے، عوام کی خواہشات کے مطابق یہ روڈ میپ ترتیب دینے میں اگر سارے کشمیری سیاسی قبیلے ناکام ہورہے ہیں تو اپنی مفاد پرستی سے عبارت سیاسی دُکانیں بندکریں اور نئی قیادت کو اُبھرنے کیلئے جگہ چھوڑ دیں۔