نئی دہلی/ کٹک// صدر دروپدی مرمو نے بدھ کو قانونی ماہرین (وکلائ) سے اپیل کی کہ وہ عدالتی مقدمات کی جلد سماعت اور جلد انصاف کی سمت کام کریں تاکہ لوگوں کا عدالتی نظام پر اعتماد برقرار رہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس بات پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح پسماندہ افراد کو انصاف فراہم کیا جائے ۔
صدر مملکت نے کہا کہ عدالتوں میں تیز رفتاری سے مقدمات کی سماعت اور جلد فیصلوں سے ایسے بے گناہ قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے جو معمولی الزامات کی بنیاد پر طویل عرصے سے جیلوں میں بند ہیں۔محترمہ مرمو کٹک میں اڑیسہ ہائی کورٹ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر سال بھر جاری رہنے والی تقریبات کی اختتامی تقریب میں حصہ لے رہی تھیں۔
صدر نے کہا کہ ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ لوگوں کو ان جرائم کی سزا سے زیادہ عرصہ جیل میں ڈالا گیا ہے جن پر ان پر الزامات عائد کیے گئے تھے ۔ جس کی وجہ سے بے گناہ لوگ اپنی زندگی کا اہم وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف جرائم کے متاثرین بھی اس وقت امید کھو بیٹھتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ مجرموں کو قانونی طور پر سزا نہیں دی گئی۔ اس طرح انصاف میں تاخیر انتہائی تشویشناک ہے ۔
انہوں نے اوڈیشہ ہائی کورٹ سے وابستہ تمام لوگوں پر زور دیا کہ وہ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے کام کریں اور پورے ملک کے لیے ایک مثال قائم کریں۔
صدر نے کہا کہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لوگوں کے پاس نہ تو زیادہ علم ہے اور نہ ہی ان کے پاس انصاف تک رسائی کے وسائل ہیں۔ تو ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ‘انہیں انصاف کیسے ملے گا؟’ اس سوال پر گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان میں قانونی پیشے نے اپنے شہریوں کا اعتماد اور احترام حاصل کیا ہے ۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اہم ستونوں میں سے ایک کے طور پر مضبوط ہے ۔ انہوں نے کئی جدید، اختراعی اور ٹیکنالوجی پر مبنی تبدیلیوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کے نظام کو ہموار اور تیز کرنے کے لیے اوڈیشہ ہائی کورٹ کی بھی تعریف کی۔
صدر نے اپنے خطاب کا آغاز کارگل کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اوڈیشہ کے کئی فوجی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے مادر ہند کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کیں۔ میجر پدمپانی آچاریہ کو ان کی شراکت کے لیے مہا ویر چکر سے نوازا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان فوجیوں کی بہادری ہمارے شہریوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔
محترمہ مرمو نے کہا کہ اڑیسہ ہائی کورٹ نے اپنے 75 سال کے شاندار سفر میں کئی اعلیٰ معیارات مرتب کیے ہیں۔ اس ہائی کورٹ کے باوقار ججوں میں بابو جگن ناتھ داس، رنگناتھ مشرا، رادھا چرن پٹنائک، دیبا پریا مہاپاترا، گوپال بلبھ پٹنائک، ارجیت پاسائت، اننگ کمار پٹنائک اور دیپک مشرا جیسے ججوں کی ایک لمبی فہرست شامل ہے جو سپریم کورٹ کے جج بنے ۔ ان میں سے کچھ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے وقار کے پیچھے اس ہائی کورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹسز، ججز، ایڈووکیٹ اور سٹاف کا تعاون، دیانت، کام کی لگن اور وسیع علم ہے ۔
صدر مملکت نے کہا کہ قدرتی آفات انسانیت کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ فطرت سے ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو اور مقننہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی ماحولیات اور حیوانات کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیے ۔