سیاسی پارٹیاں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور اس حوالہ سے عوام کو گمراہ کرکے ان کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف کرنے کیلئے کچھ ایسے اشوز کو اُچھالنے کی کوشش کرتی ہیں جن اشوز کا بادی النظرمیں زمینی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ سیاسی پارٹیوں کا نصب العین بھی ہے اور طرۂ امتیاز بھی۔
جنوبی اشیاء کے اس خطے …ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان ، میانمار ، سری لنکا وغیرہ کی سیاسی اُفق پر جلوہ گر جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان کا بحیثیت مجموعی یہی طرزعمل ہے۔ البتہ اشوز کی نوعیت وقت وقت کے تقاضوں کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ حکمران جماعتیں اپنی اپنی اپوزیشن کو لتاڑنے اور عموعی طور سے نیچا دکھانے کیلئے ہر وہ دعویٰ کررہی ہیں جن کی صداقت اور صحت کے تعلق سے سوالیہ پڑے ہوتے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی پلٹ وار کرکے حکمرا ن جماعتوں پر وہ سارے الزامات عائد کررہی ہیں جن کا تذکرہ الزامات کی لغت سے بھی نہیں ملتا۔
جموںوکشمیر کے لوگ گذشتہ ۷۵؍ برس کے دوران سیاسی پارٹیوں کی ان لن ترانیوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے آئے ہیں جبکہ آج کل کی تاریخ میں یہ سیاسی پارٹیاں چند قدم آگے بڑھ کر اپنی ان لن ترانیوں کو شدت اور جدت کے ساتھ سامنے لاکر اپنے من چاہے اور اختراعی بیانیے پیش کرنے کی پیہم کوششیں کررہی ہیں۔ لیکن اس زمانے میں جبکہ انٹرنیٹ ، فیس بُک، ٹیوٹر اور دوسرے ابلاغ کے ذرائع ہاتھ کی پہنچ تک دستیاب ہیں لوگ حالات واقعات سے لاعلم نہیں۔ کون کیا کررہاہے اور کیا کچھ کہا جارہاہے عوام کی توجہ اور نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ۔ چاہئے معاملات دن کے اُجالے میں طے کئے جارہے ہوں یا رات کے اندھیروں میں سودے طے پارہے ہو عوام کی نگاہوں سے کچھ بھی چھپا ہوانہیں ہے۔ جلد یا بہ دیر سب کچھ ، اور جو کچھ بھی سینوں میں ہوتا ہے، بے نقاب ہوکر سامنے آہی جاتا ہے۔
دعویٰ کے ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ آج تک کیا کسی پارٹی نے کشمیرکے بارے میں کبھی سچ کہا ہے، کچھ کہنے اور کرنے سے قبل کیا کبھی عوام کو اپنے اعتماد میں لے لیا ہے ، جو کچھ بھی کہا اور کیا اپنے اپنے پارٹی اور انفرادی مفادات کے تحفظ اور حصول کی خاطر کیا جاتا رہا۔ لیکن دعویٰ منفرد تشخص کے تحفظ کیلئے کئے جاتے رہے، عز ت وآبرواور وقار، صحت سلامتی اوربقاء کے حوالہ سے بھی بلند وبالا دعویٰ کئے جاتے رہے لیکن عوام نے نہ اپنے مخصوص اور منفرد تشخص کا تحفظ ہوتے دیکھا اور نہ کبھی کسی مرحلہ پر ان کی عزت اور سلامتی اور وقار کے ساتھ ساتھ چاد راور چار دیواری کے تقدس کا تحفظ ہوتے دیکھا۔
وجوہات کئی ہیں، ان کا احاطہ اور گنتی وقت گذرتے اب ناممکن تو نہیں البتہ قدرے مشکل ضرور ہے۔ البتہ اہم ترین وجوہات میں سے اہم ترین یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی لیڈر شپ او ر سیاسی پارٹیوں کو جب بھی وجود بخشا گیا تو اُس وجود کی بُنیاد عوام کی اُمنگوں ، جذبات اور احساسات کے ناجائز استحصال پر رکھی جاتی رہی ۔کوئی سرحد کے اُس پار کا ملازم کے روپ میں جلوہ گر ہوتا رہا تو کوئی سرحد کے اِس پار کادم چھلہ بن کر حصول اور تحفظ اقتدار کے لئے رول اداکرکے عوام کے جذبات کا استحصال کرتا رہا۔
لوگ ہر دور میں اس سوداگری اور سیاستدانوں کے ان پیشہ ورانہ کرتبوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی رہے، ان کے برآمد نتائج کا بوجھ بھی سہتے رہے لیکن نہ مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، نہ اپنے کسی محبوب لیڈر سے سوال کرنے کی جرأت کی، اور نہ ہی کسی کا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔بس خوشنما نعروں، جھوٹے وعدوں، گمراہ کن اعلانات اور مونگیری لال کے سپنوں کی مترادف سحروں میں کھوئے، سوتے اور مدہوش ہوتے رہے۔ لوگوں کے اِسی رویہ اور عدم مواخذہ کی خوگریت کا نتیجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہرشعبے کے حوالہ سے تکلیف اور گردآب میں دھنستے گئے۔ دوسری ناکامی کی وجہ یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر یا دوسرے الفاظ میں معاشرتی سطح پر لوگ اپنے لئے کسی متفقہ بیانیہ کواختراع نہ کرپاتے، غالباً اس کی وجہ یہ بھی رہی کہ لوگ بیانیے کو اپنے لئے، حال او رمستقبل کے حوالہ سے ، کسی اہمیت کا حامل نہیںسمجھتے رہے، بس ہوا اور نعروں کی دوش پر اپنی کشتیوں کو پانی میں چھوڑتے رہے۔ قطع نظر اس کے کہ کشتی کا حشر کیا ہوگا یاکیا ہوسکتا ہے اس کا نہ تصور کیا جاتا رہا اور نہ پروا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات اور مکافات عمل کا معنوی اصلاح میں گہرا تعلق ہے ۔ دونوں کا اطلاق بھی اور برآمد ردعمل بھی اس کا عملی ثبوت ہے ۔ بہرحال بات بہت دور تک جاسکتی ہے ۔ ماضی اگر تلخ حقیقت ہے لیکن ماضی کو خرچ کرچ کرکریدتے رہیں تو زخم بھی ہرے ہوجائیں گے اور خون بھی رس رس کر پیپ بن کر بہتا دکھائی دے گا۔ کشمیرکے حوالہ سے یہ کئی چپٹر ایسے ہیں جو تلخ اور کرب سے عبارت ہیں۔ یہ تلخ چپٹر جو کرب سے عبارت ہیں کو جہاں وجود کشمیر کے مختلف نظریات کے حامل سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں نے عطا کیا وہیں یہ سارے خود بھی اہم کردار اداکرتے رہے۔ اور جب جب بھی ان چپٹروں کی ورق گرانی کا موقعہ ملتا ہے تو یہ سارے چہرے ہر عنوان اور ہر تمہید کے ساتھ منسلک اور چسپاں دکھائی دے رہے ہیں۔
ان سیاسی پارٹیوں کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ بیک وقت ان کے کئی چہرے ہیں۔ مثال کے طور پر آئین کی کالعدم شدہ دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے ہر پارٹی کا ایک الگ چہرہ نظرآرہاہے۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں گذشتہ تقریباً چار سال سے التواء میں ہے۔ کیوں التواء میں ہے یہ ایک الگ اشو ہے البتہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے ۲؍اگست سے اس کی سنوائی کا فیصلہ سنایا ہے دہلی کی کیجریوال سرکار نے سپریم کورٹ سے رجو ع کرکے یہ درخواست پیش کی کہ اس مخصوص معاملے پر سماعت کو فی الحال التواء میں ڈالدیا جائے اور ان کی پارٹی نے مرکز کے آرڈی نینس جس کا تعلق اختیارات سے ہے کو چیلنج کرنے سے متعلق جو درخواست پیش کی ہے اس کی سماعت کی جائے۔
کیجریوال اینڈ کمپنی نے سپریم کورٹ سے دفعہ ۳۷۰ کے معاملے پرسنوائی موخر کرنے کی درخواست کیوں کی یہ اگر چہ معلوم نہیںلیکن کیجریوال کی نیت اس حوالہ سے پوشیدہ نہیں ۔ اس اشوپرغلام نبی آزاد کی پارٹی کے ترجمان سلمان نظامی نے ایک طویل بیان جاری کیا جس میںانہوںنے درخواست پیش کرنے پر کیجریوال اینڈ لمیٹیڈ کمپنی کو نہیں بلکہ کانگریس پارٹی کو لتاڈا اور بقول سلمان نظامی کے کانگریس نے ایساکرکے اپنے چہرے کو بے نقاب کردیا۔
سچ کیا ہے ، جس سچ کو آزا د کی پارٹی نے پردہ ڈال کر یا دوسرے الفاظ میں کیجریوال کو تحفظ فراہم کرکے کانگریس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ کیجریوال کی جانب سے پٹیشن کانگریس لیڈر جو سپریم کورٹ کا وکیل بھی ہے نے پیش کی۔ کانگریس لیڈر بحیثیت وکیل وہ ایک پیشہ ور بھی ہے۔ پارٹی کا اس کے ساتھ کوئی دخل نہیں، لیکن معلوم نہیں آزاد نے کیوں اس مخصوص معاملے پر اپنے ادھ پڑھ ، ان پڑھ یااور کسی پڑھ کا سوانگ رچایا؟