بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

فاروق عبداللہ کا اپوزیشن کے ساتھ ہنی مون

کشمیر اور جموں کی دوسری پارٹیاں بھی دودھ کی دھلی نہیں 

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-06-10
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقل دُشمن ہوتا ہے ۔ جموںوکشمیر کے عوام نے گذرے ۷۵؍برسوں کے دوران کئی سیاسی دوستوں کو بھی دیکھا اور سیاسی دُشمنوں کو بھی، انہیں اچھی طرح سے پرکھا بھی ہے اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس پر کھ اور سمجھ کی کوشش کا حتمی ماحصل یہ ہے کہ جموں وکشمیر کو ہندوستان کا تاج تو قراردیاجارہاہے لیکن تاج کے مکینوں کو کسی اور نظر سے ہی دیکھا جارہاہے، یہاں پہنچ کر سیاسی سوچ، سیاسی نظریہ اور سیاسی اپروچ غرض سارے راستے بدل جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کیوں کا جواب تلاش کرنے کیلئے زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے جتنے بھی پہلو ہیں ان کا گہرائی سے جائزہ  لینا پڑے گا تب کہیں جواب کی صورت میں کچھ ہاتھ آسکنے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ ماضی اگر کوئی حقیقت ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ وقتاً فوقتاً جموںوکشمیر کی سیاسی قیادت نے ملکی قیادت کے کئی شہسواروں کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا، ان سے روابط قائم کئے اور اس طرح گہرائی سے دیکھا جائے تو جموںوکشمیر کا رشتہ ملک کے ساتھ گہرا اور مضبوط بنانے کی سمت میں اہم کردار اداکیا۔ یوں دوطرفہ اشتراک عمل سے یہ کارروان آگے بڑھتا گیا۔
لیکن جب جموںوکشمیر کے عوام کو ملکی سیاسی قیادت کی طرف سے اخلاقی حمایت درکار ہوئی تو کوئی آگے نہیں بڑھا۔لوگوں میں مایوسی ہوئی اور کئی سارے سوال لب پہ آتے رہے۔ اس یاسیت  اور گھٹن زدہ ماحول اور صورتحال سے جھوجتے ہوئے عوام پر یہ بات آشکار ہوئی کہ جموں وکشمیر سیاسی اور انتظامی معاملات کے تعلق سے ایک تبدیلی کے دورمیںداخل ہوا، تبدیلی کا یہ دور عوام کیلئے اُمید وبیم اور کشمکش سے عبارت بھی رہا۔ تبدیلی کے ان چار برسوں کے دوران لوگوں پر کئی ایسے حقائق بھی آشکارا ہوتے رہے جو حقائق نظروں سے پوشیدہ تھے، یا وہ حقائق جن پر بات کرنے کی کوشش تو کی جاتی لیکن کہا جاتا کہ چپ کر و یہ بات کرنا واجب نہیں۔
اس سارے تناظرمیں جموںوکشمیر کے روایتی سیاست دانوں کا رول اور کردار کیا رہا، اس کے آگے سوالیہ ہیں۔ جس کسی بھی پہلو سے ان روایتی سیاستدانوں کے انداز فکر، اپروچ، طرزعمل، بیانات اور معاملات کے تعلق سے ان کے خیالات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ یہ سارے مٹی کے مادھو، ابن الوقت اور اپنے مفادات کے ہی دھنی ہیں۔ یہ سیاست تو کررہے ہیں ، اپنی اپنی سیاسی دکانیں سجا بھی رکھی ہیں لیکن ان پر جو سودا سلف فروخت کرنے کیلئے رکھا جارہا ہے اس کا کوئی خریدار نہیں۔ اس بارے میں انہیں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔
ان سے پوچھو کشمیر کیلئے نریٹو کیا ہے یا کیا ہونا چاہئے اور جموں کا نریٹو کیاہے یاکیا ہونا چاہئے، ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں، ان سے سوال کرو کہ جموںوکشمیر کی مجموعی ترقی، خطوں کے درمیان آپسی تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے ان کا کردار اور سوچ کیا ہے تو اس کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں، البتہ ان کے پاس کچھ خزانے ضرور ہیں جن خزانوں میںطعنہ زنی ، کردارکشی، الزامات ، جوابی الزامات ،بے بُنیاد دعویٰ ، گمراہ کن کلمات اور فقرے بازی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تقسیم درتقسیم کرنے کے تمام میزائل اور تیر موجود ہیںجنہیںوہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں اور تیر پھینک کر اس خود فریبی میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں کہ مخاطب زخمی ہوگیا۔ مخاطب زخمی ہو بھی جائے تو بھی پلٹ وار کرکے وہ بھی اس فریب یا خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتاہے کہ اس نے بہت بڑا جوابی کارنامہ کیا۔
ایک مایوس کن صورتحال ہے۔ا س مایوس کن منظرنامے سے باہر نکلنے کی راہیں اور متعدد آپشن دستیاب ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سارے لوگ، ’’میں ‘‘میںمبتلا ہیں لیکن ’’ہم ‘‘ ’’میں‘‘میں یقین نہیں رکھتے۔ یہ حکومت اور چنائو کمیشن سے جموںوکشمیر میںفوری طور سے الیکشن کرانے کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد جو منظرنامہ اُبھر کر سامنے آسکتا ہے اُس پر ان کی نگاہ نہیں کیونکہ ان میںسے ہر پارٹی اس خود فریبی میں مبتلا ہے کہ اسے ہی لوگوں کا بھاری منڈیٹ حاصل ہوگا اور وہ اکیلے جموں وکشمیر کے اقتدار پر جلوہ گر ہوکر اپنے اختیار کردہ ایجنڈا کی تکمیل میں خود کو وقف کرے گی۔ لیکن انہیں ذرہ بھر بھی اس کا احساس نہیں کہ ووٹ کب کا تقسیم ہوچکا ہے۔ کشمیرکے ووٹ کے بہت سارے خریدار ہیں اور یہ خریدار وہ ہیں جن کا کوئی ایک فکری مکتب نہیں۔ اسی طرح جموں خطے کا بھی یہی حال ہے۔
الیکشن کے حوالہ سے یہ متوقع منظرنامہ ان سبھوں کیلئے قبل از وقت چشم کشا ہونا چاہئے تھا جس کے ہوتے وہ ایک دوسرے سے مشاورت پر مجبور ہوجاتے اور ایک متحدہ نہ سہی البتہ مشترکہ پلیٹ فورم تشکیل دینے کا راستہ اختیا رکرتے۔ لیکن ایسی کوئی بھی صورت اُبھر تی نظرنہیں آرہی ہے۔
اس حوالہ سے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا ملکی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا روابط اور خاص کر اگلے سال عام الیکشن کے حوالہ سے حکمران جماعت کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانے کی سمت میں رابطے اور کوششیں کیا مضحکہ خیز نہیں؟جموں وکشمیر میں اس کی جغرافیائی وحدت اور سالمیت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے درمیان کم سے کم پروگرام اور ایجنڈا کو لے کر اتحاد کی لڑی میں پروسنے کی ان سے کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے لیکن ملکی سطح پر وہ بیس سے زائد اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ایک متحدہ محاذ بنانے کیلئے توسیعی دوروں پر ہیں۔ تازہ ترین رابطوں کی کڑی کے طور فاروق عبداللہ نے سابق وزیراعظم دیو گوڈا سے ملاقات کی اور اپوزیشن اتحاد کے مختلف پہلوئوں پر تبادلہ خیالات کئے۔
فاروق عبداللہ کی اپوزیشن اتحاد کو ممکن بنانے کی کوششوں کے تعلق سے مصروفیات، سرگرمیوں اور رابطوں سے جموںوکشمیر کے عوام کو کیا حاصل ہوگا؟یہ سوال ہر کوئی کررہاہے۔ سوال واجبی بھی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اور ان کی لیڈر شپ حکمران جماعت کے مقابلے میں اپنی کامیابی اور حصول اقتدار کی خواہش کے ساتھ میدان میں ہیں لیکن انہوںنے بحیثیت مجموعی یا کسی نے انفرادی طور سے ابھی تک فاروق عبداللہ کے اس مطالبے کہ جموںوکشمیر میںالیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیںکیا،کیوں؟
فاروق صاحب اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی سوچ کے مطابق سیاسی سرگرمیوں اور مصروفیات کو آگے بڑھا سکتے ہیں، یہ ان کا انفرادی فیصلہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جموں وکشمیر اور اس کے عوام کو ڈھیر سارے مسائل اور معاملات کا سامنا نہیں ہے ، کیا اپوزیشن کے ساتھ خود کو وابستہ کرکے ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے یا کوئی راستہ ہموار ہوسکتا ہے، برعکس اس کے اسی طرز کی کوشش کرتے ہوئے اگر فاروق عبداللہ جموںوکشمیر کی سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ مل کر وزیراعظم کے ساتھ نشست منعقد کرتے تو ان میں سے کئی ایک معاملات کا حل اب تک تلاش کرلیاگیا ہوتا۔ لیکن یہ راستہ اختیار نہیں کیا جارہاہے بلکہ اپوزیشن کی صف میں شمولیت اختیار کرکے ان کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیر اور جموں کے وسیع ترمفادات کو دائو پر لگانے کا راستہ اختیار کیاجارہاہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

حجاب پر ……شکر ہے !

Next Post

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں ’کوہلی کو آؤٹ کرنے کیلیے بال ٹیمپرنگ‘کی گئی : باسط علی کا دعوی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
پنک بال ٹیسٹ میں ہندوستان نے سری لنکا کو 238 رن سے شکست دے کر سیریز 2-0 سے اپنے نام کی

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں ’کوہلی کو آؤٹ کرنے کیلیے بال ٹیمپرنگ‘کی گئی : باسط علی کا دعوی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.