سرینگر/۱۹مئی(ویب ڈیسک)
وزیر اعظم نریندر مودی نے’ نکی ایشیا‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ ’معمول اور ہمسایہ تعلقات‘ چاہتا ہے لیکن یہ اسلام آباد کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر دہشت گردی سے پاک ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے۔
پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ معمول کے دو طرفہ تعلقات چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ”دہشت گردی اور دشمنیوں سے پاک ایک سازگار ماحول پیدا کرنا پاکستان پر فرض ہے۔ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ہے“۔
ہندوستان نے سرحد پار سے دہشت گردی کے لیے پاکستان کی حمایت پر بار بار اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اس ماہ کے شروع میں گوا میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی تھی لیکن وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ کوئی دو طرفہ بات چیت نہیں ہوئی۔
پی ایم مودی کا نکی ایشیا کو انٹرویو، جو کہ نکی کا حصہ ہے، جو ایشیا کے سب سے بڑے آزاد کاروباری میڈیا گروپوں میں سے ایک ہے، جاپان میں جی ۷ سربراہی اجلاس سے پہلے آیا ہے، جو کہ بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجوں کے وقت ہو رہا ہے۔
انٹرویو کے دوران، وزیر اعظم نے چین کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوالات کا بھی جواب دیا اور گلوبل ساو¿تھ کی آوازوں اور خدشات کو بڑھانے کےلئے ہندوستان کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔
پی ایم مودی نے کہا”ہندوستان اپنی خودمختاری اور وقار کے تحفظ کے لیے پوری طرح تیار اور پرعزم ہے“۔
2020 کے موسم گرما میں چین کے ساتھ مشرقی لداخ میں چینی فوج کی کارروائیوں کے بعد ایک تعطل پیدا ہوا اور جب کہ بات چیت کے نتیجے میں کچھ علاقوں سے علیحدگی ہوئی ہے، کچھ نزاعی مقامات باقی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا”چین کے ساتھ معمول کے دوطرفہ تعلقات کے لیے سرحدی علاقوں میں امن و سکون ضروری ہے۔ ہندوستان اور چین کے تعلقات کی مستقبل کی ترقی صرف باہمی احترام، باہمی حساسیت اور باہمی مفادات پر مبنی ہو سکتی ہے۔ تعلقات سے خطے اور دنیا کو فائدہ ہوگا“۔
پی ایم مودی جی۷ چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعہ کو جاپان کے ہیروشیما پہنچے۔ ہندوستان کو سمٹ میں بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ ہندوستان 2003 سے جی 7 چوٹی کانفرنس میں حصہ لے رہا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہندوستان روس،یوکرین تنازعہ میں ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے، پی ایم مودی نے کہا کہ یوکرین تنازعہ پر ان کے ملک کا موقف ’واضح اور اٹل ہے‘۔
مودی نے کہا”ہندوستان امن کے ساتھ کھڑا ہے اور مضبوطی سے وہاں رہے گا۔ ہم ان لوگوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر خوراک، ایندھن اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں۔ ہم دونوں روس اور یوکرین کے ساتھ رابطے کو برقرار رکھتے ہیں“۔ ، انہوں نے مزید کہا ”تعاون کو ہماری اوقات متعین کرنی چاہیے، نہ کہ تنازعہ“۔
پی ایم مودی نے کہا کہ جاپان اور ہندوستان کی جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار نے انہیں قدرتی طور پر قریب لایا ہے۔
ان کاکہنا تھا”اب ہم اپنے سیاسی، سٹریٹجک، سیکورٹی اور اقتصادی مفادات میں بڑھتے ہوئے ہم آہنگی کو دیکھ رہے ہیں“۔
مودی نے ہیروشیما میں گروپ آف سیون سربراہی اجلاس میں’گلوبل ساو¿تھ‘ ممالک کی آوازوں اور خدشات کو بڑھانے کا عزم بھی کیا، کیونکہ وہ 20 کے وسیع تر گروپ کے ساتھ ’فروغ ہم آہنگی‘کے لیے کوشاں ہیں۔ ہندوستان G20 کی صدارت رکھتا ہے اور اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔
پی ایم مودی نے نکی ایشیا کو بتایا کہ وہ توانائی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سپلائی چین جیسے شعبوں میں عالمی تبدیلیوں اور چیلنجوں پر بات چیت کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا”میں ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر ہندوستان کے کردار پر زور دوں گا۔“