جو کشمیر آج ہم دیکھ رہے ہیں یا جس کشمیرمیں ہم فی الوقت رہ رہے ہیں یہ وہ کشمیر نہیں جسے ہمارے اسلاف، بزرگوں ، صوفیوں ، سنتوں، ریشیوں، منیوں، ولیوں، بزرگان دین بشمول حضرت نور الدین نورانی علمدارؒ کشمیر نے اپنی وراثت میں ہمارے لئے چھوڑا تھا۔وہ کشمیر کہیں کھوگیا ہے، کہاں کچھ معلوم نہیں ، اس کھوئے کشمیر کیلئے آہ وفغان کریں، آنسو بہائیں یاکلیجہ چیر پھاڑ کر رکھیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ وہ کشمیر واپس آئے گا، جسے عالم اقوام نے بھی جنت قراردیاتھا، یہ یاد رکھیں کہ جنت خوبصورت باغوں، آبشاروں، پہاڑوں ، گلیشئروں او ر سحر انگیز وادیوں کا نام نہیں۔
وہ کشمیر گیا کہاں اور آج کا جو کشمیر ہے اس کی بُنیاد کس نے ڈالی اور کون اس کشمیر کو انہی خطوط پر پروان چڑھارہا ہے جس کشمیر کا ہم روز مختلف پیش آمدہ واقعات اور معاملات کے حوالہ سے مشاہدہ کررہے ہیں جبکہ ان واقعات اور معاملات کا مشاہدہ کرتے کرتے ایک دوسرے کو حیرت سے تک تو رہے ہیں لیکن کچھ کرنہیں پارہے ہیں۔
ذمہ داری کا تعین کرنے بیٹھ جائیں تو کئی ایک معاملات کو ان کے سیاق وسباق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کلیدی قرار دیا یا سمجھا جاسکتاہے ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ جسے اب’جرم‘ کہنے میںکوئی مغالطہ نہیں یہ ہے کہ والدین کی ایک ایسی فصل بھی حالیہ برسوں میںوجود میں آگئی جن کے ہاتھ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے بے محنت کی دولت آگئی، اس دولت ، جسے دنیاوی اصطلاح میںمادی ترقی کا نام دیاجاسکتا ہے کو آنکھیں بند کرکے جب لٹانے کا راستہ اختیار گیا گیا تو ظاہر ہے اولاد یں بھی بگڑتی چلی گئیں ، ان کے بچوں کے ہاتھ اپنے والدین کی بے محنت کی دولت کا ایک حصہ جدید ترین ساخت کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، آئی فونز اور دیگر طبع تفریح کے حوالہ سے سامان کی صورت میں ہاتھ لگ گیا، وہ اپنا ذہنی اور نفسیاتی توازن برقرار نہ رکھ پائے لہٰذا سڑکوں ، باغات، کھیت کھلیانوں میں وہ خرمستیوں میں جٹ گئے، وہ اسی کو متاع زندگی تصور کرگئے۔
جس قوم میں گن متعارف ہوجائے وہ گن ایک نشہ کا روپ اختیار کرجاتا ہے، پھرا س نشہ کو جس کے ہاتھ میں بھی لگ جائے وہ بدمست ہوکر اس کا آنکھیں بند کرکے استعمال کرنے کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔ یہی گن معاشروں کے اندر بگاڑ کا موجب بھی بن جاتا ہے اور اخلاقی اقدار کا جنازہ بھی نکالے جانے کا باعث بن جاتا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران کشمیرکے مختلف علاقوں میں جو سفاکانہ اور دلخراش واقعات ہوئے ان کی گہرائی کا جائزہ لے کر یہ مترشح ہوجاتاہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ذہنوں میں جرائم کے کیڑے سرائیت کرجاتے ہیں جو کیڑے ان کے اندر اپنی جڑوں کو مستحکم کرنے کے بعد انہیں مختلف نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے پر اُکستاتے ہیں اور جرائم کی تحریک دیتے ہیں۔ پھر بھائی، بھائی کا قتل کرنا ہے وجہ عورت، زمین یا زر، زبردستی شادی کی خواہش پوری نہ ہو پائے تو قتل کرکے نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے زیر زمین دفن یا بُرد آب کرکے قاتل اور مجرم یہ فرض کربیٹھتا ہے کہ اُسے کسی نے دیکھا نہیں اور اپنے کئے پر فخر کرتا ہے۔
کشمیر کی سڑکوں ، شاہراہ پر موٹر سائیکل سواروں کی ایک ایسی نسل بھی دندناتی نظرآرہی ہے جس کو کسی کا خوف یا ڈر نہیں۔ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سائیکلوں کو ہوا کے دوش اُڑا کر گاڑیوں اور لوگوں کی بغلوں کے بیچوں بیچ راستہ نکالنے کا مرض اپنے تمام تر کرتبوں کے ساتھ ہر گذرتے روز کے ساتھ بڑ ھتا اور عروج اختیار کرتا جارہاہے۔ کوئی گاڑی سائیڈ نہ دے پائے تو اس گاڑی اور اُس میں سواروں کی خیر نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے غنڈہ گردوں کا سڑکوں پر راج ہے، جنہیں نہ اپنی صحت اور سلامتی کی پروا ہے اور نہ کسی قانون کا ڈر۔
اس کا ایک تازہ ترین ثبوت پارمپورہ کے علاقے میں ابھی چند گھنٹے پہلے سامنے آیا جب گاڑی میں سوار ایک خاتون کے ساتھ تعاقب میں بہت دور سے آرہے موٹر سائیکل سواروں کے ایک جھنڈنے تمام تر اخلاقی، تہذیبی اور شائستگی کا دامن ہوامیں اُڑا کر انہیں ہراساں کیا یہاں تک اس واقعہ سے متعلق جو ویڈیو وائرل ہے اس میںواضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس غنڈہ جھنڈ سے وابستہ چند ایک گاڑی پر لاتیں بھی مارتے رہے اور حملہ آور بھی ہوتے رہے۔ بہرحال پولیس نے اس غنڈہ گرد بریگیڈ سے وابستہ ۹؍ افراد کو ان کی موٹر سائیکلوں کی ضبطی کے ساتھ حراست میں لے لیاہے۔
لیکن پولیس کی اس برقت کارروائی کا عوامی سطح پر جہاں والہانہ خیر مقدم کیاجارہاہے اور بڑے پیمانے پر ستائش کی جارہی ہے وہیں یہ مطالبہ عوامی سطح پر کیا جارہاہے کہ ان بگڑی اولادوں کو سخت سے سخت ترین سزائوں سے ہم کنار کرنا ہی جہاں قرین انصاف ہوگا وہیں پولیس ریکارڈ میں ان کے ناموں کے ساتھ جرائم پیشہ کالیبل چسپاں کردیاجائے تاکہ مستقبل ان کا مخدوش ہوجائے تاکہ دوسرے بھی عبرت حاصل کرسکیں۔
اس نوعیت کے ناخوشگوار اور دلخراش واقعات کی تہہ میں اور بھی کئی وجوہات ہیں جن میں کشمیر کے سماج کی معاشرتی سطح پر بے حسی، لاتعلقی سا رویہ اور اپروچ ،عدم محاسبہ اور ذمہ دارانہ طرزعمل کا فقدان خاص طور سے قابل ذکرہیں۔
ہم بحیثیت مجموعی یہ فرض کربیٹھے ہیں کہ جرائم سے نمٹنے کی ذمہ داری پولیس اور امن وقانون سے وابستہ اداروں کی ہے، جو صحیح ہے لیکن جومعاشرہ یہ فرض کربیٹھا ہے اس کی اس سماج کے ،جواُس کا اپنا ہے، کے تئیں اس کی ذمہ داری اور فرائض کیا ہیں؟ کیا کبھی اس نے اپنی ذمہ داری اور فرائض کے بارے میں خود سے کوئی سوال کیا ہے ، اگر کیا ہوتا تو آج اُس کو لاتعلقی ، بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کا طعنہ نہ سننا پڑتا۔