نئی دہلی//دہشت گردی کے الزامات کے تحت نچلی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے ایک مسلم قیدی کی اپیل پر چھ ہفتہ میں سماعت مکمل کیئے جانے کا آج سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ کو حکم جاری کیا۔
جمعیۃ علمائے ہند (ارشد مدنی) کی جاری کردہ رے لے ز کے مطابق ، عرضی گذارمحمد رضوان صدیقی 2006 سے سلاخوں کے پیچھے مقید ہے اور لکھن[؟] ہائیکورٹ میں عمر قید کی سزا دینے والی نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل 2008 سے التوا ئکا شکار ہے ۔
جمعیۃ علمائہند قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ملزم کی ضمانت کی عرضی پر بحث کرتے ہوئے ایڈوکیٹ گورو اگروال نے سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس کرشنا مراری اور جسٹس احسان الدین امان اللہ کو بتایا کہ نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل 2008 سے التوائکا شکار ہے اور اس پر کب حتمی بحث ہوگی کسی کو پتہ نہیں ، گورو اگروال نے عدالت کو بتایا کہ تعزیزات ہند کی دفعات 121/120 کے تحت عرض گذار کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے جبکہ تعزیزات ہند کی دفعات 121/120کے اطلاق کے لیئے ضروری اجاز ت نامہ یعنی کے سینکش آرڈر حاصل نہیں کیا گیا اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا دی جو قانوناً غلط ہے ۔ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ عرض گذار پر دہشت گردانہ معاملات میں جن قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے (ٹاڈا ، پوٹا وغیرہ) ان کا اطلاق نہیں کیا گیا اس کے باوجود سیشن عدالت نے عرض گذار کو عمر قید کی سزا دی ہے جس پر نہ تو ہائی کورٹ نظر ثانی کررہی ہے اور نہ ہی اسے ضمانت پر رہا کررہی ہے ۔
ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ اپیل پر کئی مرتبہ سماعت شروع ہوئی لیکن ججوں کی تبدیلی کی وجہ سے کبھی بھی سماعت مکمل نہیں ہوسکی اور سماعت نہ ہونے کے لیئے عرض گذار ذمہ دار نہیں ہے بلکہ استغاثہ اپیل پر سماعت کرانے میں خاص دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ عرضی گذار تا عمر میں جیل میں رہے ۔یہ قیدیوں کے حقوق اور حقوق انسانی کی حق تلفی ہے ، مقدمہ کی تیز سماعت ہر شہری کا حق ہے لیکن اس حق سے عرضی گذار کو محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
دریں اثنائاتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا گریما پرساد نے عدالت کو بتایا کہ عرضی گذار کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور اس کے تعلقات بنگلہ دیشی وپاکستانی دہشت گردوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا دی تھی لہذا عرض گذار کو اگر ضمانت پر رہا کیا گیا تو وہ ملک سے فرار ہوسکتا ہے ۔ایڈوکیٹ گریما پرساد نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ ہائی کورٹ میں بحث کرنے کے لیئے تیار ہے ۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے لکھن[؟] ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ عرض گذار اور دیگر ملزمین کی اپیلوں پر چھ ہفتوںکے اندر سماعت مکمل کرے اور اگر چھ ہفتوں کے اندر سماعت مکمل نہیں ہوئی تو عرض گذار دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکتا ہے ۔ دوران سماعت عدالت نے زبانی تبصرہ بھی کیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ اور لکھن[؟] ہائی کورٹ میں مقدمات کئی کئی دہائیوں سے التوا ئکا شکار ہیں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود حالات میں تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے لیکن انہیں امید ہے کہ لکھن[؟] ہائی کورٹ اس مقدمہ کی سماعت چھ ہفتوں کے اندر مکمل کرلے گی۔دوران سماعت سرپم کورٹ میں ایڈوکیٹ گورو اگروال کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے ۔