آزاد کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے کچھ کانگریسی لیڈران مستعفی ہوکر واپس کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے کااعلان کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آزاد پارٹی میں اندرون پارٹی جمہوریت نہیں جبکہ آنے والے وقت میں سیکولر ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے۔آزاد پارٹی کے ترجمان کا جواب میں کہنا ہے کہ یہ لوگ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والوں کا راستہ روک رہے تھے جبکہ دوسری طرف کانگریس کے کچھ لیڈران بشمول ان کا صدر وقار رسول برابر آزاد کو نشانہ بنارہاہے اور آزاد کے بارے میں اپنے قد سے حد سے کہیں زیادہ بڑ ے بڑے دعویٰ کررہے ہیں۔
حقیقت کیاہے؟ اس پر سے ابھی مکمل طور سے پردہ سرکتا نظرنہیں آرہاہے البتہ اب تک جو کچھ بھی منظرعام پر آیاہے وہ اگر کوئی حقیقت رکھتا ہے تو وہ واقعی حیران کن ہے کہ حکومت کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کے حوالہ سے ماضی کے کم وبیش سبھی معاملات کو گڑھوں سے اکھاڑ کر بالا زمین لارہی ہے اس بارے میں خاموش اور بے حرکت کیوں ہے۔باالخصوص دہشت گردوں کی اعانت کے حوالہ سے یادہشت گردی کے ایکو سسٹم کے تعلق سے ۔
وقار پر مسلسل الزام عائد کیاجارہا ہے کہ اس کے ملی ٹنٹوں سے روابطہ تھے، کچھ سرٹیفکیٹوں کا معاملہ بھی اُٹھایا جارہاہے جبکہ کانگریس …پی ڈی پی دور حکومت اور کانگریس …نیشنل کانفرنس دورحکومت کے دوران بعض کانگریسی وزراء اور لیڈروں کے کورپشن، بدعنوان طرزعمل یا مارل کورپشن میںسراتا پا ملوث ہونے کے معاملات کے دعوے بھی اب سامنے آرہے ہیں۔ مارل کورپشن کے تعلق سے یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ ریاستی کانگریس یونٹ کاسابق صدر کچھ خاکی اور کچھ سویلین بیروکریٹوں کے ہمراہ بدنام زمانہ سیکس سکینڈل میں جیل کاٹ چکے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ اُس سکینڈل کو دبانے اور رفع دفع کرنے کی نیت اور مصلحتوں کے تحت اس معاملہ کو سرینگر سے چندی گڑھ منتقل کردیاگیا جہاں کافی مدت تک معاملہ کی سماعت ہوتی رہی، خرگوش کی چال اور رفتار کی مانند گواہوں کو پیش کیاجاتارہا اور بالآخر معاملہ سرد پڑتے ہی سارے ملوث چھوٹ کر واپس آگئے، جیسے کوئی معاملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ غالباً اسی ’تڑپتے اور زخمی انصاف ‘ کے احساس سے مغلوب ڈاکٹر فاروق نے اپنی جماعت کے پھر سے برسراقتدار آنے کی صورت میں سیکس سکینڈل کی پھر سے تحقیقات کا اعلان کیا تھالیکن جب کانگریس ہی ان کی شریک اقتدار بنی تو سرنو تحقیقات ایک نئی سیاسی مصلحت کا شکار بنا۔
بہرحال آزاد خود اور ان کی پارٹی اگر مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ ماضی قریب میں کئی کانگریسی وزراء کورپشن اور بدعوانیوں میں ملوث رہے ہیں تو یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق منظرعام پر لائیں،پردہ راز میں رکھنے اور ملوث افراد کو نت نئی سیاسی یا غیر سیاسی مصلحتوں کے تحت پردوں کی اوٹ میں کرنے سے نہ جموں وکشمیرکے کسی وسیع تر مفاد کا تحفظ یقینی بنایاجاسکتا ہے اور نہ ہی جموںوکشمیر کی سیاسی اُفق پر موجود اس گند عظیم کو ٹھکانے لگانے کی بجائے اوپر اوپر سے فنائل کی تہہ میں چھپانے کی کوئی کوشش سیاست میں شفافیت اور راست بازی کے کسی پہلو کو یقینی بناسکتی ہے۔
یہ کوئی دعویٰ یا مفروضہ نہیں کہ جموں وکشمیر کا ہر پہلو بدعنوانیوں، استحصال ، کورپشن ،لوٹ کھسوٹ، بددیانتی ،ریاکاری ، دغا بازی، جھوٹ فریب اور چھل سے عبارت بھی ہے اور ان کے بوجھ تلے ہر گذرتے دن کے ساتھ دبتا چلا جارہاہے۔ نہ ماضی مبرا تھا اور نہ حال، مستقبل کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے البتہ جب ماضی اور حال کو درست کرنے کی نیت نہیں، کوئی سنجیدگی نہیںتو مستقبل کا قربان گاہ کی بھینٹ چڑھ جانا خارج ازامکان نہیں۔ خود ہماری ہمسائیگی میں سرحدوں کے اُس پار سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کورپشن، بدعنوانیوں اور لوٹ نے اُس ہمسایہ کے ۹۰ فیصد مکینوں کو زمین پر رینگنے اور مٹی چاٹنے پر مجبور کردیا جبکہ اُس ملک کی سیاست کاسارا اوڑھنا بچھونا اب صرف اور صرف کورپشن، بدعنوان طرزعمل، جھوٹ اور ان سب پر اداروں کی بڑھتی سرپرستی پر منتج ہوتا جارہا ہے۔
ممکن ہے خود آزاد کی پارٹی میں حالیہ ایام میں شمولیت اختیار کرنے والے کچھ لوگ جو ماضی میں ذمہ دارعہدوں پر فائز رہ چکے ہیں بھی کورپٹ اور بدعنوان طرزعمل میںملوث رہے ہوں لیکن ان کے بارے میں عوامی سطح پر زیادہ معلومات نہ ہوں یا عوامی سطح پر زیادہ چرچے نہ ہوں۔ ایسے افراد اگر آزاد پارٹی کا مستقل حصہ بنیں رہینگے تو خود یہ پارٹی مستقبل میں ان دوسری پارٹیوں سے کسی بھی اعتبار سے مختلف نہیں ہوگی جن کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ بلندوبانگ دعوئوں کے باوصف وہ کورپشن میںملوث رہی ہیں۔ آزاد پارٹی کے سربراہ اور بانی کی حیثیت سے یہ غلام نبی آزاد کی اخلاقی ذمہ دار ی ہے کہ وہ خود ایسے افراد کوباہر کا دوازہ دکھادیں ، وہ ہجوم پر بھروسہ اعتماد اور فخر نہ کریں بلکہ معیار ،شفافیت اور دیانتداری کو پارٹی کا اساس قراردیں اور اُس اُساس پرپھر سختی سے کاربند رہیں۔
سیاسی کوٹ تبدیل کرنے سے کسی کے گناہ معاف نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی عارف بن جاتا ہے۔ قانون فطرت یہ ہے کہ فطرت تبدیل نہیں ہوتی۔ عوام کی نگاہوں میں ایسے کئی ہیںجو آزاد پارٹی کاحصہ تو بن چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی فطرت بھی تبدیل کریں گے؟ جواب معلوم ہے۔ آزاد پارٹی کے بارے میں یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے کہ جموںوکشمیر میں جب بھی چنائو ہوں گے عام رائے دہندگان آزاد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ جزوی طور سے تھمادیں گے یا کلی طور سے، کیونکہ چنائو کے بارے میںبات تو کی جاتی ہے لیکن اصل میںیہ کب ہوں گے ، یا ہوں گے بھی کہ نہیں، کچھ کہنا مشکل ہے لہٰذا عوام کی سوچ اُس وقت کیا ہوگی یہ فیصلہ اُس وقت لوگ اُس وقت کے حالات اور مستقبل کی ضرورتوں اور اُمیدوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی کریں گے، البتہ یہ بات ضرور واضح ہے کہ آزاد نے فی الوقت تک کچھ پیش رفت حاصل کرلی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان سے جو خوفزدہ ہیں یا خوف محسوس کررہے ہیں وہ مسلسل طور سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آزاد پارٹی کی تشکیل میں درپردہ بی جے پی کا ہاتھ ہے۔
کانگریس کا جموں وکشمیر یونٹ اس تعلق سے پیش پیش ہے ۔حالانکہ خود کانگریس کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ جموںوکشمیر سے عوام کا مکمل اعتماد حاصل کرے کیونکہ لوگ باالخصوص کشمیرمیںعوام کی اکثریت کانگریس اور اس کی لیڈر شپ کو بحیثیت مجموعی عہد شکن ، اعتماد شکن اور کشمیرکے معاملات کے حوالہ سے جمہور شکن سمجھ رہے ہیں۔ اس تعلق سے تاریخ کو بطور گواہ پیش کیاجارہاہے۔