لو جی اب ہم آزاد صاحب کا کیا کریں اور کیا نہیں ۔ہم کیا انہیں سمجھ رہے تھے اور یہ کیا نکلے… ویسے اند ر کی بات ہے کہ ہم انہیں کوئی توپ نہیں سمجھ رہے تھے ‘لیکن کچھ ضرور سمجھ رہے تھے … کشمیر کے اندر نہیں بلکہ کشمیر کے باہر انہیں کچھ سمجھ رے تھے کہ … کہ کشمیر میں ان سے بھی بڑے قد آور لیڈر آئے اور گئے … کہاں گئے‘ کسی کو آج ان کا ایڈریس بھی معلوم نہیں ہے… خیر! یہ ایک الگ موضوع ‘ ایک الگ بات ہے۔ آزادصاحب کاکہنا ہے کہ انہیں جموںکشمیر میں لوگوں سے بے پناہ پیار ملاہے… ان کی توقعات سے بھی زیادہ پیار… ان کے الفاظ میں اگر انہیں پہلے پتا چلتا کہ انہیںلوگوں سے اتنا پیار ملے گا … ہول سیل میں ملے گا تو انہوں نے کانگریس سے خود کو آزاد کرنے کا جو فیصلہ دو تین ہفتے پہلے لیا … شاید اس سے پہلے اور… اور بہت پہلے لیتے ۔اب آپ ہی بتائیے کہ آزاد صاحب سے ہم کہیں تو کیا کہیں کہ … کہ انہیں کنفیوژن ہے… بہت زیادہ کنفیوژن ہے… پیار اور ووٹ‘ پیا کرنے والوں اور ووٹروں میں انہیں بہت بڑا کنفیوژن ہے ۔اگر آزاد صاحب جموں کشمیر میں کچھ کرنا چاہتے ہیں… جیسا کہ یہ خود کہتے ہیں وہ اپنا نا مکمل ایجنڈا مکمل کرنا چاہتے ہیں تو… تو اس کیلئے انہیں پیار کرنے والے لوگ نہیں بلکہ ووٹ دینے والے لوگ چاہئیں … جو ان کی آواز پر آنکھیں بند کرکے انہیں ووٹ دیں … اور… اور لوگوں کوووٹنگ بوتھوں تک لا کر اپنے حق میں ووٹ ڈلوانا کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں ہے… چھوٹی موٹی بات تو لوگوں کو اپنے جلسہ گاہ تک لانا ہے …اور کسی بھی سیاسی جماعت‘ سیاسی لیڈر کیلئے مسئلہ نہیں ہے… مسئلہ ووٹروں کا ہے اور… اور یہ ضروری نہیں اوربالکل بھی نہیں کہ آزاد صاحب کو جموں کشمیر کے جن لوگوں سے پیار مل رہا ہے… ڈھیر سارا پیا مل رہا ہے… وہ انہیں ووٹ بھی دیں … ایسا ہو یہ ضروری نہیں ۔ پیا ر کرنے والوں کو ووٹروں میں تبدیل کرنے کیلئے اپنے آزاد صاحب کو ابھی ایک لمبا اور طویل سفر طے کرناہو گا …ایسا سفر جس کی انہوں نے کشمیر میں ابھی شروعات ہی کی … اس سفر کی منزل دورہے… بہت دور … اتنی دور تک آزاد صاحب چل پائیں گے‘ اتنی طویل مسافت ان سے طے ہو بھی پائیگی؟اللہ میاں کی قسم ہم نہیں جانتے ہیں… بالکل بھی نہیں جانتے ہیں ۔ ہے نا؟