ریاستی درجے کی بحالی کو کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک ایسا اشوبنایاجارہاہے یا ایک ایسے اشو کے طور اُچھال کر پیش کیاجارہاہے جیسے اس کا تعلق جموںوکشمیر کی بقاء اور سلامتی سے ہے۔یہاں تک کہ کچھ لیڈران ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے اپنا خون تک بہانے کی بات کررہے ہیں۔
کیا واقعی ریاستی درجہ کی بحالی جموں وکشمیرکے عوام کے لئے بحیثیت مجموعی اور جموں وکشمیر یوٹی کیلئے باالعموم بقاء اور سلامتی یا دوسرے الفاظ میں موت وحیات کا درجہ رکھتا ہے۔ کیوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اس اشو کے حوالہ سے بیان بازی کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے اور ہر جماعت کا لیڈر اپنے بیانات کے ذریعے یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کررہاہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی ہی جموںوکشمیر کو درپیش سارے مسائل اور معامات کا حل ہیں، ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ بعض سنجیدہ اور حساس عوامی حلقوں کے مطابق پارٹیوں کی طرف سے اس لئے کیا جارہاہے تاکہ عوام کی توجہ سیاسی جماعتوں اور ان جماعتوں کی لیڈر شپ کی ناکامیوں سے کسی اور جانب ہٹا جاسکے۔ جبکہ اس اشو کو جذباتی بنانے کی بھی پیہم کوشش کی جارہی ہے۔
ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ غیر اخلاقی، غیر جمہوری یا غیر سیاسی نہیں لیکن اس کی بحالی کی سمت میں پارٹیاں جو انداز، لہجہ اور اپروچ استعمال کررہی ہیں اس کا بغور جائزہ لینے پر فوری تاثر یہی ملتا ہے کہ پارٹیاں اس مخصوص معاملے کو اپنے اپنے لئے حصول اقتدار کی سمت میں ایک زینہ تصور کررہی ہیں کیونکہ انہیں اپنی جگہ احساس ہے کہ لوگ بحیثیت مجموعی اس سے بدظن اور متنفرہوئے ہیں۔
اس تعلق سے مرکز کا رویہ اور موقف کیا ہے؟ وزیرداخلہ امت شاہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کئی بار اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ ریاستی درجہ کی بحالی’مناسب‘ وقت پر ہوگی۔ وہ واضح کرچکے ہیں کہ الیکشن پراسیس کی تکمیل کے بعد ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں اقدامات اُٹھائے جائینگے۔ لیفٹنٹ گورنر منوج سہنا نے ابھی چند ہفتے قبل اس حوالہ سے حکومت کے منشاکو یہ کہکر واضح کیا کہ الیکشن کی تکمیل کے بعد ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں اقدامات کئے جائیں گے۔
ان واضح اور دوٹوک اعلانات کے تناظرمیں بعض سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ریاستی درجہ کی بحالی کو ’چنائو مینی فیسٹو‘ بنانا اور اس حوالہ سے عوام کی توجہ ہٹانا ناقابل فہم ہے۔ پھر مخصوص طور سے کشمیر کیلئے یہ مخصوص اشو کیوں؟ حالانکہ جموں کے لوگ اور جموں نشین سیاسی پارٹیاں درجہ کی بحالی کی مخالفت نہیںکررہی ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ جموں نشین کچھ مخصوص سیاسی نظریات اور علاقہ پرستی اور فرقہ پرستانہ نظریہ کی حامل جماعتیں (جن کی تعداد دو سے زائد نہیں) جموں کیلئے علیحدہ ریاست کا درجہ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ان جماعتوں نے اس اشو کو مذہبی ترجیحات یا نظریات کے تابع کردیا ہے۔ وہ آئین کی دفعہ ۳۷۱ ؍کے نفاذ اور عمل آوری کے ساتھ ساتھ جموں پر مشتمل کشمیر سے الگ ایک الگ ریاست چاہتی ہیں۔
ان دو پارٹیوں کا یہ نعرہ جموںوکشمیر کی سالمیت اور جغرافیائی وحدت کی ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت اور وحدت کے منافی ہے اور یہ ایک غدارانہ عمل ہے۔ کشمیرنشین سیاسی جماعتیں اس حوالہ سے خاموش ہیں۔ ظاہر ہے جو ان دو پارٹیوں کے سربراہ اس نوعیت کا مطالبہ کرکے آپسی رواداری، یگانگت اور بھائی چارا کو دانستہ طور اور اپنے حقیر نظریات اور مفادات کی تکمیل کیلئے ناقابل تلافی زک پہنچانا چاہتے ہیں یا زک پہنچانے کے درپے ہیں۔ در حقیقت وہ ہیں جنہوںنے کٹھوعہ میں ۸؍سالہ معصوم لڑکی کے اغوا، اجتماعی عصمت دری اور پھر سفاکانہ قتل میں ملوث افراد کو معصوم اور بے گناہ قرار دے کر نہ صرف بی جے پی اور پی ڈی پی پر مشتمل مخلوط حکومت بلکہ پولیس یہاں تک کہ جوڈیشری تک کو ذلیل کرنے کی تحریک چلائی۔
پھران پارٹیوں کے اس مطالبے کا نشانہ براہ راست جموں نشین بی جے پی ہے جو جموں وکشمیرکی جغرافیائی وحدت اور سلامتی کا موقف اور نظریہ کی حامی ہے۔ان دو پارٹیوں کے اس مخصوص علیحدگی پسندانہ نظریات کے حامل موقف کو خدانخواستہ قابل عمل تصور کیاگیا تو کنٹرول لائن کے اُس پار پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیراور چین کے ناجائز قبضے میں ایک بڑے خطے پر ہندوستان کا دعویٰ سیاسی ، نظریاتی اور آئینی اعتبا رسے ختم ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جس ڈوگرہ فخر کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور جس ڈوگرہ فخر کو ریاست جموں وکشمیر کی تشکیل کی سمت میں ایک تاریخی کارنامہ قرار دیاجارہا ہے وہ فخر بھی زمین بوس ہوکر رہ جاتا ہے ۔ کیا ایک جٹ جموں اور چودھری لال سنگھ اس نئے فتنے جو علیحدگی پسندی،علاقہ پرستی ، مذبہی جنون، فکری دہشت اور علاقائی تعصب سے عبارت ہے کیلئے ذمہ دارنہیں۔
ان دوپارٹیوں کا یہ علاقائی اور فرقہ پرستی سے عبارت نظریہ یا مطالبہ لیفٹنٹ گورنر منوج سہنا کی اُس اپیل سے حد سے زیادہ متصادم ہے جو گورنر نے ابھی چند ہفتے قبل یوم آزادی کے موقعہ پر کی جس میں اور باتوں کے علاوہ گورنر نے کہا کہ ’’ یہ سنہری موقع ہے کہ ہم جموں وکشمیر کے فخر کو سربلند رکھیں، آئیے ہم سب آئندہ نسل کیلئے خود کفیل جموں وکشمیر کی تعمیر کریں تاکہ اپنے اسلاف کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بناسکیں، ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں سب برابر کے شریک ہوں اور جس میں کوئی امیتاز نہ ہو، ایسا سماج تشکیل دیں جس کے طفیل ہر فرد مستفید ہو، اور سب سے بڑھ کر ہم متحد ہوکر ان سازشوں اور مکروہ عزائم کو ناکام بنائیں جو جموں وکشمیر کوتاریکی میں دھکیلنے کیلئے کی جاتی ہیں‘‘۔
بہرحال ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ کچھ پارٹیوں کی قیادت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ ان کی کاوشوں کا ثمرہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے زمین پر مالکانہ حقوق اور مقامی نوجوانوں کیلئے سرکاری ملازمت کا سو فیصد مخصوص کرنے کا مطالبہ مان لیا ہے۔ یہ دعویٰ کچھ حلقوں کو ہضم نہیں ہورہاہے اور وہ اس دعویٰ کو چیلنج کررہے ہیں۔