بارہمولہ میں سرحد کے قریب تفتیشی ایجنسی نے چھاپہ مار کارروائی کے بعد دعویٰ کیا کہ ٹیرر فنڈنگ کے حوالہ سے کچھ اہم کامیابی ہاتھ لگ گئی ہے۔ یہ بھی کہاگہا ہے کہ اس تعلق سے کچھ ’جعلی صحافیوں‘ کی بھی نشاندہی ہوئی ہے جو ناجائز سرگرمیوں اور ٹیرر فنڈنگ سے متعلق معاملات میں ملوث پائے گئے ہیں۔
یہ جعلی صحافی کون ہیں ان کے بارے میں کوئی تفصیل یا شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے البتہ کشمیر میں ذمہ دار اور سنجیدہ میڈیا اور اس سے وابستہ صحافیوں کیلئے یہ انکشاف فکری مندی اور باعث تشویش ہے۔
بے شک آئین اور مروجہ قوانین اظہار رائے کی آزادی کے حق کو تسلیم بھی کرتا ہے اور اس کی اجازت بھی دیتاہے لیکن یہ اظہار آزادی وحدت، سالمیت ،یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی منافی سرگرمیوں کیلئے بطور مشن اور وژن استعمال کی جائے تو کوئی بھی ذمہ دار اور حساس معاشرہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی ذمہ دار حکومت یا اس کی سرپرستی میںکوئی انتظامی اکائی ایسی کسی سرگرمی کو برداشت کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیر میں حالیہ کچھ مدت سے صحافت کے شعبے سے کچھ ایسے لوگ بھی میدان میں کود تے اور پھلانگتے نظرآرہے ہیں جن کے بارے میں وثوق اور دعویٰ کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ یہ لوگ صحافت کی اب ج د سے بھی واقف نہیں اور نہ ہی ان چند مٹھی بھر کے بارے میں ایسی کوئی مستنداور معتبر اطلاع ہے کہ وہ کسی صحافتی تربیتی ادارے سے تربیت یافتہ یا فارغ التحصیل ہیں۔
اس حوالہ سے المیہ کہے یا صحافتی بدقسمتی ، ایسے کچھ نام نہاد صحافی اپنے لئے ادارتی سرپرستی بھی حاصل کرنے میں محض اپنی چاپلوسی اور خوشامدی کے زینے برئوے کار لاتے کامیاب چلے آرہے ہیں جبکہ کچھ دیکھا دیکھی اور قوانین کی کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے صحافت کے نام پر دندناتے اور پھرتے نظرآرہے ہیں۔نہ ایسے افراد کسی سرکاری ادارے سے تسلیم شدہ ہیں اور نہ ہی وہ کسی مروجہ قانون کو اپنے لئے واجب احترام تصور کررہے ہیں۔
مائیک ہاتھ میں لے کر اس پر کسی ادارے کا لیبل چسپاں کرکے خود کو صحافت کے شعبہ سے وابستہ تو جتلا رہے ہیں لیکن اس تعارف کے حصول کے بعد، بعد میں درپردہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث نظرآرہے ہیں جو ذمہ دارصحافت کے ماتھے پر جہاں سیاہ دھبہ کی حیثیت رکھتا ہے وہیں سٹیٹ کیلئے ایک پُر خطر چیلنج بھی اُبھر تا نظرآرہاہے یا بن رہاہے۔
ایسے معاملات اور سرگرمیوں کی بیخ کنی کی گنجائش موجود ہے اور ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ اس ذہنیت کے حامل ذمہ داراور سنجیدہ صحافتی اداروں کی بدنامی اور تذلیل کاہی موجب نہیں بن رہے ہیں بلکہ سٹیٹ کی وحدت ، یکجہتی اور سالمیت کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بھی ہیں۔
اس ضمن میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سٹیٹ تفتیشی ایجنسی نے چھاپہ مارکارروائی کے دوران جن جعلی صحافیوں کا دعویٰ کیاہے وسیع ترمفادات کا تقاضہ یہی ہے کہ ان کی مکمل شناخت ظاہر کی جائے۔ ان کی شناخت اور ملک مخالف سرگرمیوں کو پردوں کی اوٹ میں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ آنے والے کل میں کسی بھی وقت کوئی بین الاقوامی ادارہ اس دعویٰ کے ساتھ بیان بازی کا راستہ اختیا رکرکے میدان میں نظرآئے گا کہ جموں وکشمیر میں صحافیوں کی تنگ طلبی اور ہراسانی کا راستہ اختیار کیاجارہاہے۔ یہ ادارے ان جعلیوں کو آزاد صحافیوں کے طور پیش کرکے اپنی ظاہری معتبریت کا ڈھنڈورا پیٹتے دکھائی دیں گے۔
ان اداروں سے بھی پوچھ تاچھ کی جائے جن کے نام پر یہ جعلی لوگ سڑکوں پر نظرآرہے ہیں اور خود کو بطور صحافی جتلا لارہے ہیں۔ بے شک کوئی بھی آزاد شہری اپنے لئے روزگار یا پیشہ کے حوالہ سے کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتا ہے لیکن جس پیشہ سے کچھ لوگ خود کو وابستہ کررہے ہیں اس کے کچھ بُنیادی لوازمات ہیں، اس کا اپنا ایک مخصوص تقدس ہے، پیشہ ورانہ حساسیت اور ذمہ دارانہ طرزعمل سے وابستگی ہے، یہ پیشہ کار نجار بدست گلکار ، والا معاملہ یا شعبہ نہیںہے، عالمی تناظرمیں محض سرسری تجزیہ کیاجائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ لاتعداد صحافیوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں ، قوم اور ملک کے وسیع ترتقاضوں، صحافتی پیشے کی حرمت اور تقدس کے تحفظ کیلئے اپنی عزیز اور قیمتی زندگیوں کو قربان کیالیکن پیشہ کے تقدس پر ذرہ بھر بھی آنچ نہیں آنے دی۔
کشمیرمستثنیٰ نہیں، کشمیرمیںایسے صحافیوں کی فہرست ریکارڈ پر دستیاب ہے جو اپنا فرض منصبی نبھاتے نبھاتے دُنیا کو الوداع کہہ گئے لیکن ان چند جعلی صحافیوں کی بھی فہرست موجود ہے جنہوںنے بلیک میلنگ ، زرد صحافت، دھونس ،دبائو اور دوسرے اوچھے حربے برئوے کار لاتے کشمیر کی صحافت اور ذمہ دار صحافتی اداروں کے ماتھے کو کلنک کردیا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے کچھ عنصرآج کی تاریخ میں بھی موجود ہیں اور صحافت کے نام پر صحافت اور سٹیٹ کی سالمیت، وحدت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ ایسے عنصر کا قلع قمع کرنا قرئن انصاف بھی ہے اورقرئن مصلحت بھی!