نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ضمانت کے حکم کے باوجود ایک شخص کو 28 دن تک حراست میں رکھنے کو آزادی کے آئینی حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو متاثرہ شخص کو 5 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔
جسٹس کے وی وشواناتھن اور جسٹس این کے سنگھ کی بنچ بدھ کے روز ہیبیس کارپس کیس کی سماعت کر رہی تھی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ غازی آباد کی جیل انتظامیہ 29 اپریل کو سپریم کورٹ کے حکم اور 27 مئی کو باضابطہ رہائی کے حکم کے باوجود ملزم کو رہا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔
بنچ نے کہا کہ نہ جانے ایسے کتنے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جسٹس وشواناتھن نے جیل حکام کے طرز عمل کی مذمت کی ۔ انہوں نے غازی آباد کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو حکم دیا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں اور اس شخص کی رہائی میں 28 دن کی تاخیر کے ذمہ دار اہلکاروں کا احتساب کریں۔
یہ شخص ضابطہ انصاف کی دفعہ 366 اور اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ، 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (i) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، اور ضمانت ملنے کے بعد 24 جون تک حراست میں رہا تھا۔ عہدیداروں نے واضح کیا کہ ضمانت کے حکم ذیلی شق کی غلطی کی وجہ سے اس شخص کو رہا نہیں کیا جا سکا تھا۔
جسٹس وشواناتھن نے سخت تبصرہ کیا، "آزادی بہت قیمتی اور قانونی حق ہے جو کسی شخص کو دیا گیا ہے ۔ اس پر ان فضول تکنیکی وجوہات کی بناء پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
جیل حکام اور ریاستی انتظامیہ پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کیا ذیلی دفعہ کو چھوڑنا کسی کو حراست میں لینے کا جواز ہے ؟ اگر ہم واضح عدالتی احکامات کے باوجود لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے رکھتے ہیں تو آج ہم عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔
اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد اور اتر پردیش کے جیل خانہ جات کے ڈائریکٹر جنرل پی سی مینا نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالتی کارروائی میں حصہ لیا۔ غازی آباد جیل سپرنٹنڈنٹ بنچ کے سامنے موجود تھے ۔
جسٹس وشواناتھن نے کہا، "آپ نے کل ہماری مداخلت کے بعد ہی اسے رہا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو کسی اور حکم کو ماننے کی ضرورت نہیں تھی۔ تکنیکی بنیاد پر آزادی کے حق سے انکار کرنے کا یہ واحد بہانہ تھا۔ کون سی شق کہتی ہے کہ اگر ذیلی دفعہ چھوٹ جائے تو ضمانت کے حکم کے باوجود کسی شخص کو جیل میں رکھا جانا چاہیے ۔
اس کے بعد عدالت نے غازی آباد کے پرنسپل ڈسٹرکٹ جج کو رہائی کا حکم جاری کرنے میں تاخیر کی وجوہات کی عدالتی تحقیقات کرنے کی ہدایت دی۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا ذیلی سیکشن کو چھوڑنا درحقیقت تاخیر کی وجہ تھی، یا کوئی اور نیت یا سنگین غفلت کار فرما تھی۔