واشنگٹن//
ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولودی میری زیلنسکی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
منگل کی شام پام بیچ میں اپنے فارم ہاؤس پر ایک پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے زیلنسکی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ یوکرین کے صدر کی مقبولیت کم ہو گئی ہے۔ٹرمپ کے مطابق تقریبا تین برس قبل روس کے جامع حملے کی ذمے داری یوکرین پر عائد ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے زیلنسکی اس بات پر نکتہ چینی کر چکے ہیں کہ ان کے ملک کو روس یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کے ساتھ کسی بھی مذاکرات سے دور رکھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ٹھیک ، وہ وہاں تین سال سے تھے … انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا جس سے یہ چیز (جنگ) شروع ہو”۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ "وہ معاہدے تک پہنچ سکتے تھے”۔
امریکی صدر نے کہا کہ اگر جنگ چھڑنے کے وقت وہ اقتدار میں ہوتے تو وہ ایک سمجھوتے تک پہنچ سکتے تھے۔ یہ سمجھوتا یوکرین کو "تقریبا تمام اراضی پیش کر دیتا ، کسی ہلاکت یا کسی شہر کے تباہ ہوئے بغیر … میں امن چاہتا ہوں ، میں مزید ہلاکتیں نہیں چاہتا”۔
امریکی صدر نے یوکرین میں صدارتی انتخابات کے اجرا کی ضرورت پر زور دیا۔ ماسکو یہ مطالبہ ایک سے زیادہ مرتبہ کر چکا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ "یہ صرف روس کی بات نہیں، یہ ایسی بات ہے جس کا میں خود اور دیگر ممالک بھی مطالبہ کر رہے ہیں”۔
روس کا اصرار ہے کہ یوکرین کے صدر کی مدت گذشتہ مئی میں ختم ہو چکی ہے لہذا اب ملک میں انتخابات کرائے جائیں۔
ادھر کئیف حکومت نے باور کرایا ہے کہ موجودہ مارش لاء کے تحت زیلنسکی کے اختیارات ابھی تک برقرار ہیں۔
یاد رہے کہ یوکرین میں آخری صدارتی انتخابات 2019 میں منعقد ہوئے تھے۔
روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بھرپور حملہ کیا تھا جب روسی افواج بیلا روس، روس اور جزیرہ نما قرم سے یوکرین میں داخل ہو گئی تھیں۔