جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکو کچھ ایسے سیاستدان غالباً مقدر سے ملے ہیں جو اپنے اپنے اختیار کردہ نظریات اور مخصوص خولوں سے باہر آنے ، جھانکنے اور کچھ کر گزرنے کی یا توصلاحیت نہیںرکھتے یا اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں سے مجبو ر ہوکر دامن کترانے کو یہی ترجیح دے رہے ہیں۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، فی الحال گذرے کچھ برسوں کے دوران ان سیاستدانوں کے انداز فکر، طرزعمل، بیانات اور ترجیحات کے حوالہ سے بات کی جائے تویہ واضح ہوجاتاہے کہ یہ سیاستدان حضرات آئین کی دفعہ ۳۷۰، ۳۵؍اے ، ریاستی درجہ اور چند دوسرے سیاسی نوعیت کے مخصوص معاملات پر بیان بازی سے باہر نہیں آرہے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ دوسرے عوامی مسائل کو اپنی ترجیحات سمجھ رہے ہیں۔حکمران طبقہ نے بھی اسی محور میں خود کو قید کررکھاہے اور اپوزیشن بھی کچھ مختلف نہیں۔ دوسری جانب جن سیاستدانوں نے اپنے نظریات اور سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کی سمت میں ان آئینی دفعات کو ختم کردیا اور ریاست کا درجہ اور رتبہ چھین لیا وہ اپنے ان اقدامات کا قدم قدم پر دفاع کرنے میں اپنا بیشتر وقت ، توانائی اور دستیاب وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ایک طرح سے غور کیاجائے تو آئینی دفعات کا خاتمہ کرنے والوں اور اب ان کی بحالی یا واپسی کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان ٹکرائو جاری ہے اور اس ٹکرائو کی عمر اب چھٹے سال سے گذررہی ہے۔
کشمیر اور جموں دونوں خطوں کے عوام کو انتظامی، اقتصادی، روزگار اور کاروبار کے شعبوں کے تعلق سے سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ دونوں خطوں میں شراب نوشی اور منشیات کا استعمال تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے،بے روزگار ی اپنی پوری رفتار کے ساتھ ملکی سطح پر نمبر ایک پوزیشن حاصل کرچکی ہے، کم روزگاری الگ سے ایک نیا مسئلہ سرپر سایہ فگن ہوتا جارہاہے، مختلف نوعیت کے جرائم کا گراف ہر طلوع سحر کے ساتھ بلند ہوتا جارہا ہے، جموںوکشمیر کا گرین رقبہ محدود ہوتا جارہاہے اور اب موسمیاتی تبدیلی ایک ایسے سنگین مضمرات کے حامل اشو کے طور پر سایہ فگن ہوتا جارہاہے کہ اللہ رحم نہ کرے تو آبادی پانی کی بوند بوند کے لئے بھی ترستی نظرآئیگی اور فاقہ کشی کے نتیجہ میں حوادث الگ سے سراُبھارتے نظرآئینگے۔
بحیثیت مجموعی کشمیرکا سیاستدان تقریباً سو فیصد عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کی سمت میں ناکام نظرآرہاہے جبکہ جموں نشین سیاستدان ملکی سطح پر اپنی سرپرستی کے طفیل بہت حد تک اپنے عوام کو درپیش معاملات کا حل تلاش کرنے کی سمت میں سو فیصد نہ سہی البتہ پچاس فیصد حد تک کامیاب نظرآرہاہے۔ کشمیرکے حوالہ سے بہت سارے شعبوں میں صورتحال کو غیر متوازن سمتوں کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ کہیں سے بھی راحت کی ایک ذرہ بھر رمق نہ محسوس کی جارہی ہے اور نہ ہی دکھائی دے رہی ہے۔آبادی کا ہر طبقہ کسی نہ کسی معاملے کے تعلق سے پریشان حال ہے اور بے بسی اور لاچارگی کا رونا روتا جارہاہے لیکن کوئی اس کے آنسو روک کرپونچنے کی کوشش نہیں کررہاہے۔
اب حالت یہ ہے کہ سنجیدہ اور حساس حلقے سیاسی طبقوں سے سوال کررہے ہیں کہ وہ کب تک ان اقدامات پر ماتم کناں اور مرثیہ خواں رہینگے اور انہی اشوز کو لے کر اپنی سیاسی دکانیں چلاتے رہینگے جن اقدامات نے بلاکسی شک وشبہ کے عوام کو زخم دیئے ہیں اور احساسات اور اعتماد کو چھلنی کرکے رکھدیا ہے۔ بے شک ان معاملات کے ساتھ عوام کی جذباتی وابستگی ہے لیکن کیا ۷x۲۴ ان پر ماتم کناں رہتے زندگی کے دوسرے معاملات حل ہوں گے ، کیا یہ مرثیہ خوانی نوجوانوںکو بے روزگاری سے نجات دلائے گی، کیا اس حوالہ سے سڑک، پانی ، بجلی ، روٹی اور روزگار کے دوسرے معاملات کی سنگینی کم ہوپائیگی، برعکس اس کے سیاسی اشوز پر تمام تر توجہ اور توانائی مرکوز کرکے ایک ایسے طبقے کو من مانیوں اور عوام کے وسیع تر مفادات کا ناجائز استحصال کرنے کی کھلی چھوٹ مل رہی ہے جو طبقہ اب حالیہ چند برسوں کے دوران نہ صرف مادی اعتبار سے صاحب ثروت کے طور اُبھر چکا ہے بلکہ جموں وکشمیر میں ایک ایسے ورک کلچر کو بھی پروان چڑھایاجارہاہے جو ورک کلچر اب اُس بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑرہا ہے جس کی آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔
ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ اب کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔ دہلی کی جانب سے درجہ کی بحالی کے مطالبات کے جواب میں کہا جارہا تھا کہ ’مناسب وقت پر ‘ لیکن اب یہ مناسب وقت ’’مقررہ وقت‘‘ میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ اگر چہ پہلے کے مناسب وقت کا بھی پتہ نہیں تھا لیکن اب اس مقررہ وقت کا بھی کچھ عندیہ نہیں لیکن اس تبدیلی اور رویہ میں ایک نئی کروٹ کو بھی سیاسی طبقہ سمجھ نہیں پارہاہے یا سمجھتے ہوئے انہی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اور اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نظرانداز کررہاہے۔
اس تعلق سے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بھی کسی سے کم نہیں، استفسارات کے جواب میں وہ ادھر اُدھر کے چند کلمات اداکرکے اپنا راستہ ہولیتے ہیں، عموماً جواب دیاجارہاہے کہ ’میر ی حکومت کو منڈیٹ ایک سال کیلئے نہیں پانچ سال کیلئے ہے اور پانچ سال کی حکومتی مدت مکمل ہونے پر جو نیا چنائو منشورجاری کیاجائے گا اُس میںاپنی سابقہ کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے اوران کی پارٹی برسراقتدار ہے، اس حوالہ سے ان پر ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ ہے۔ وہ ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں اپنے طور سے جدوجہد کررہے ہیں اور دوسرے سیاسی نوعیت کے معاملات پر بھی اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں، ان سے انکار یا اختلاف نہیں ، لیکن عوامی سطح پر روزمرہ معمولات کے تعلق سے جو مسائل سوہاں روح اور باعث تکلیف بنے ہوئے ہیں ان کا حل تلاش کرنے کیلئے بھی حکومتی توجہ اور پہل درکار ہے۔
بیانات، تبصرے اور تجزیے ان کا حل نہیں بلکہ سنجیدہ توجہ، انتظامی پہل اور فعالیت اور سنجیدہ ورک کلچر مطلوب ہے۔ ان سب کا فقدان ہے، جموں ایڈمنسٹریشن اپنے مخصوص نظریات کے تحت کام کررہی ہے اور کشمیر ایڈمنسٹریشن کی نگاہیں کہیں اور کی طرف مرتکز ہیں۔ قانون اور قوائد وضوابط تو ایک اور مشترکہ ہیں لیکن کشمیر اور جموں کے حوالوں سے عمل درآمد مختلف مگر ایک دوسرے کی ضد ہے۔