جتنے منہ اُتنی باتیں ! ایک یہ کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ عوام سے کیے گئے وعدوںسے اب آہستہ آہستہ انحراف کر کے مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے بہت قریب جا رہے ہیں اور اس مقصد کو یقینی بنانے کے لیے وہ ۳۷۰ اور خصوصی پوزیشن کی بحالی پر اصرار کوحاشیہ پررکھ رہے ہیں ۔
دوئم وزیر اعلی اپوزیشن انڈیا بلاک سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کر کے مرکزی قیادت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بلاک کا حامی نہیں بلکہ جموںو کشمیر میں ترقیات اور امن کو آگے بڑھانے کے لیے مرکز کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔
سوئم یہ کہ مرکز نے انہیں اِشاروں میں بھی اور راست طور سے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ۳۷۰ ،خصوصی درجہ ۳۵؍ اے ایسے معاملات کو مدعا بنانے کی بجائے اس ایجنڈا کو منطقی انجام تک لے جانے کی سمت میں اپنا کردار ادا کرے جس ایجنڈا پر حکومت ۱۰؍ سال سے عمل پیرا ہے، ایسا کرنے کی صورت میں جموںو کشمیر کے لیے فنڈز کی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی جائے گی ۔یہ اور کئی دوسری طرح کی باتیں ،دعوے یا مفروضے چرچے میں ہیں۔
خود وزیراعلیٰ عمرعبداللہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں ہورہے ان چرچوں سے بے خبر ہیں، نہیں بلکہ وہ بہتر فیڈ بیک رکھتے ہیںا ورغالباً اُسی فیڈ بیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوںنے اپنے تازہ ترین دو خصوصی انٹرویوز میں ان کی طرف اشارہ کرکے مطلع پر اُبھری دھند کو یہ کہکر ہٹانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ میں نے ۳۷۰؍ کی لڑائی نہیں چھوڑی ہے، البتہ وزیراعظم نریندرمودی جب تک اقتدار میں ہیں اُس وقت تک ان کے ہاتھوں اس کی بحالی کا امکان نہیں‘‘۔
عوام اور سٹیٹ کے ساتھ مرکز کے وعدوں اور اعلانات کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’’اگر مرکزی سرکار اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو ہم مرکز کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں گے، اچھے تعلقات کو بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے طور پر دیکھا نہیں جانا چاہئے جبکہ مرکز کے ساتھ خوشگوار تعلقات میںکا م کرنا بری چیز نہیں ہے‘‘۔جہاں تک ریاستی درجہ کی بحالی کا معاملہ ہے تو وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’’ میں درجہ کی بحالی کی سمت میں پُر اُمید ہوں کیونکہ اب اس کی بحالی کا وقت آگیاہے ‘‘۔
وزیراعلیٰ کے ان خیالات سے واضح ہورہاہے کہ وہ مرکزی سرکار کے ساتھ کسی قسم کا ٹکرائو نہیں چاہتے بلکہ مرکز کے ساتھ ہاتھ بٹاتے ہوئے جموں وکشمیرکی ترقیات اور قیام امن میں استحکام کی سمت میںمثبت اور تعمیری کردار اداکرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر وعدے پورے نہیں کئے گئے تو وہ ان تعلقات پر نظرثانی کریں گے سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فی الوقت ان کے مرکزی قیادت کے ساتھ کوئی جھگڑا یا اختلاف نہیں بلکہ وہ مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے مرکز سے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی یوٹی کو ضرورت اور مطلوب ہے۔ اس تعلق سے مناسب فنڈز کی دستیابی سرفہرست ہے کیونکہ عوام کے مسائل اور معاملات اتنے ضخیم ہیں کہ ان کا قلیل المدتی اور طویل المدتی حل تلاش کرنے کیلئے بڑے پیماے پر مرکزی امداد کی ضرورت ہے اورا س مرکزی امداد کے بغیر جموں وکشمیر کے عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اس تعلق سے ضمناً وزیراعلیٰ کی جانب سے بجٹ سے قبل منتخبہ ممبران اسمبلی ودیگر منتخبہ اداروں کے ممبران کاروبار اور تجارت سے وابستہ سٹیک ہولڈروں وغیرہ سے ملاقاتوں میں مسائل اور معاملات کی صورت میں اب تک جو کچھ بھی منظرنامہ سامنے آیا ہے وہ بادی النظرمیں ہمالیائی حجم کے تو ہیں لیکن ان کی شدت میں کسی حد تک کمی لانے کیلئے ذر کثیر درکار ہے، اور یہ ذر کثیر جموں وکشمیر اپنے محدود وسائل سے فراہم نہیں کرسکتی۔
مرکزی مالی امداد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے مرکز کے ساتھ تعلقات کا خوشگواررہنا اور آپسی مفاہمت پر بھی مبنی ہوںناگزیر بن جاتے ہیں، کیونکہ یہ کوئی یکطرفہ عمل نہیں اور نہ ہی یہ مرکزی امدادناخوشگوار اور بگڑے تعلقات کے ہوتے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے دونوں فریقوں کیلئے یہ فطرتی عمل بن جاتا ہے کہ وہ کچھ لے اور کچھ دے کے اصول کا راستہ اختیار کریں۔
فرض کریں کہ عمر عبداللہ اپنی حکومت کے پورے پانچ سال مرکز کے ساتھ معاملات کے تعلق سے اختلافی گھوڑے پر سوار ی کو ترجیح دیتے رہیں تو سوال یہ ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے جموںوکشمیر کے لوگوں کا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کا جو حشر ہونا تھا وہ ہوچکا ہے، بے شک یہ دونوں جذباتی وابستگی رکھتے تھے اور فی الوقت بھی ان کے ساتھ گہرے جذبات وابستہ ہیں لیکن اس تلخ سچ کو تسلیم کرنا عام عوام کیلئے بھی ضروری ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ کیلئے بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ اس تلخ حقیقت کو ملحوظ رکھے اور عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ وزیراعلیٰ کو ان کی کسی کارکردگی کے حوالہ سے طعنہ تودے سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے لیکن اس کیلئے عوام کے وسیع تر مفادات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔
کشمیر بحیثیت مجموعی کم وبیش ہر ایک شعبے کے حوالہ سے گھاٹے میں ہے اپوزیشن لیڈر شپ اپنے مخصوص سیاسی خولوں سے باہر آکر اس زمینی حقیقت کو دیکھنے اورسمجھنے کی کیوں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی ہے۔ بار بار ان حساس اور غو ر طلب معاملات کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود، بدقسمتی کا مقام ہے، مفادپرست اور پارٹی سیاست کی عینک سے دیکھنے کا ہی بدستور راستہ اختیار کیاجارہاہے۔ اس طرز کی سیاست اور اپروچ ووٹ کا حصول تو ممکن بناسکتاہے لیکن ردعمل میں جوکچھ بھی ہاتھ میں ہے بچاکچھا ہے،اس کے بھی چھین لئے جانے کے امکانات پیدا ہوتے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ ریاستی درجہ کی بحالی کی جس پُر اُمیدی کا اظہار کررہے ہیں اس اُمید کی وجہ وہ مذاکراتی عمل اور اس حوالہ سے تسلسل ہے جو وہ مرکزکے ساتھ کررہے ہیں۔ اس کے برعکس اپوزیشن جماعتیں صرف زبانی جمع خرچی سے کام لے رہی ہیں۔ جموں میں راجپوت یووا مورچہ نے ریاستی درجہ کی بحالی کے حق میں بڑی ریلی نکالی، کیا کشمیر نشین اپوزیشن… پی ڈی پی، اپنی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی ، پیپلز کانفرنس وغیرہ نے ایسی کوئی انفرادی یا اجتماعی کوشش کی ؟
جموں نے حکمران بی جے پی کو ۲۹؍ اسمبلی حلقوں میںکامیاب کیا لیکن اس کے باوجود جموں کی تقریباً سو فیصد آبادی ریاستی درجہ کی بحالی کی حق میں ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی سے وابستہ کچھ ممبران اسمبلی بھی یہ کہتے سُنے جارہے ہیں کہ آفیسر شاہی کے ہوتے کوئی کام نہیں ہورہاہے اور آفیسر شاہی کے اس کلچر کو ختم کیاجانا چاہئے۔ یہ ختم اُسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب ریاستی درجہ مکمل طور سے بحال ہوجائے، لیکن اگرگورننس کا موجودہ ماڈل بدستور جاری رہا تو کوئی عوامی مسئلہ حل نہیںہوگا اور نہ وزیراعلیٰ کی مرکز کے ساتھ قریبی تعاون اور تعلقات خوشگوار بنائے رکھنے کی کوشش دیر پا ثابت ہوسکتی ہے۔