وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اور مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی، اس ملاقات میںکیا کچھ باتیں ہوئی، کن امورات پر مشاورت ہوئی اور کیا کوئی فیصلہ ہوا اس بارے میں کوئی تفصیل منظرعام پر تو نہیں آئی البتہ وزیراعلیٰ نے ملاقات کے بعد اپنی روایت کے مطابق ایک پیغام میںکہا کہ انہوںنے وزیر داخلہ سے ریاستی درجہ کی بحالی، بجٹ سے متعلق معاملات اور جموں وکشمیر کے تعلق سے لااینڈآرڈر اشوز پر بات کی۔
بادی النظرمیں دیکھا جائے تو جموں وکشمیر کیلئے یہ تینوں معاملات بے حد اہمیت اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ بالاخصوص ریاستی درجہ کی بحالی …وزیرداخلہ سے جموںوکشمیر اسمبلی میں اپوزیشن بی جے پی کے لیڈر سنیل شرما بھی ملاقائی ہوئے اور اس ملاقات کے بار ے میں بھی بتایاجاتا ہے کہ آنے والے بجٹ اجلاس کے حوالہ سے معاملات پر مشاورت ہوئی۔ لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ معاملات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے اور چنائو منشور میں عوام سے کئے اپنے وعدوں سے انحراف کرتے جارہے ہیں بلکہ کشمیر نشین اپوزیشن حلقے اب راست الزام عائد کرکے یا دعویٰ کرکے کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ حکمران جماعت بی جے پی سے قربت بڑھارہے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی جو حالیہ اسمبلی الیکشن میں قسمت آزمائی کے باوجود سُرخ رو نہ ہوسکی مسلسل عمرعبداللہ اور اسکی حکومت کو نشانہ بنارہی ہے۔ سرینگرمیںاپنی رہائش گاہ پر خانہ نظربندی سے راہ فرار اختیارکرکے وہ کٹھوعہ میں نمودار ہوئی جہاں اس نے ایک مقامی گوجر نوجوان مکھن دین کی پولیس حراست میں شدید جسمانی ازیتیں سہنے کے بعد رہائی پاکر گھر پہنچتے ہی خود کشی کرلی کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کی اور ان کی ڈھارس بندھائی۔ وہ جموں میں پریس کانفرنس سے مخاطب ہونا چاہتی تھی لیکن پویس نے التجا مفتی کو سرکاری گیسٹ ہائوس سے باہرآنے نہیں دیا۔ البتہ موقعہ پر موجود پریس نمائندگان کو بتایا کہ ’’وزیراعلیٰ دہلی میں لنچ اُڑارہے ہیں اور یہاں کٹھوعہ میں مکھن دین کی ماں اپنے بیٹے کی موت کے غم میں کئی روز سے فاقہ کشی میں مبتلا ہے‘‘۔
التجا نے اسی پر اکتفا نہیںکیا بلکہ بلاور پولیس کے ایس ایچ او پر یہ سنگین اورسنسنی خیزالزام بھی لگایا کہ وہ بھتہ خوری کا ریکٹ چلارہاہے ، مقامی نوجوانوں کو دھمکا رہا ہے، ان سے پیسے اینٹھ رہا ہے اور جو نہ دے اسے دہشت گرد یا دہشت گردوں کے حوالہ سے ایکوسسٹم کا حصہ جتلا کر ٹارچر کررہاہے۔ مانگ کی کہ اس ریکٹ کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کرائی جائے اور تب تک متعلقہ پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاجائے ۔
حکومت باالخصوص پولیس ایڈمنسٹریشن اپوزیشن کے اس الزام یا دعویٰ کو کیا کسی سنجیدگی سے لے گی یا نہیں یا مکھن دین کی ہلاکت کے تعلق سے جس محکمانہ تحقیقات کا اعلان کیا ہے اُس تحقیقات کو انصاف وقانون کے تمام تر تقاضوں کے مطابق غیر جانبداری سے منطقی انجام تک لے جائے گی اس پر توجہ مرکوز تو رہیگی لیکن اپوزیشن کا اس اشو کولے کر عمر حکومت کو نشانہ بنانے کا بظاہر کوئی جواز نہیں جبکہ امن وقانون کے تعلق سے سارے معاملات مرکز کے دائرہ اختیار میں ہیں۔
وزیراعلیٰ کھٹوعہ سوپور اور کولگام کے حالیہ دلخراش سانحات کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے حوالہ سے مرکزسے رجوع کرچکے ہیں، مرکزان اہم اور حساس نوعیت کے معاملات کو کس طرح سے ٹریٹ کرتی ہے اُس پر توجہ رہیگی لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کشمیرنشین اپوزیشن جماعتیں اور لیڈر شپ جب ان جیسے معاملات پر بیانات کے میزائل داغنے کیلئے سڑکوں پر نمودار ہوتی ہے تو جس کے ہاتھ میں ان سارے معاملات کا کنٹرول ہے اور فی الوقت جو فیصلہ سازی کا حتمی اختیار کا حامل ہے اُس سے راست سوال نہیں کیا جارہاہے اور نہ ہی اپنے محل خانوں سے باہر آکر اجتماعی طور سے اپنا احتجاج درج کراتی ہے ۔
الیکشن میں بھلے ہی اپوزیشن کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن اس ناکامی کے باوجود اپوزیشن قیادت نے کبھی اور کسی بھی مرحلہ پر یہ اعلان نہیںکیا کہ چونکہ انہیںعوام نے مسترد کردیا ہے لہٰذا وہ عوامی معاملات اور مسائل پر آواز بلند کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں بلکہ برعکس اس کے اپوزیشن لیڈر شپ قدم قدم پر اور ہر معاملے پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کررہی ہے اور الیکشن کے حوالہ سے عوام کا منڈیٹ حاصل کرنے والی حکمران جماعت سے مخاطب ہوتے اپنا کردار نبھا رہی ہے۔
حکومت کا کاروبار سنبھال کر ہاتھ بندھ جاتے ہیں اور کام کرنے کا دائرہ کار تلوار کی طرح گردن پر لٹکتی رہتی ہے ۔ بالکل اُسی طرح جب محبوبہ مفتی بحیثیت وزیراعلیٰ اور انکے والد مفتی محمدسعید اقتدار کی اس کرسی پر جلوہ افروز تھے اور نہ صرف وزیراعظم کی سٹیج پر موجودگی کے باوجود یہ اعلان کرتے بھی سنے گئے کہ ’’اب جبکہ میں اقتدارمیںآگیا ہوں لہٰذا جنگجو مجھ پر اعتبار کریں تاکہ میں ان کی نمائندگی کروں یا یہ پاکستان کی مہربانی ہے کہ اس نے پر امن الیکشن کے انعقاد کو کشمیر میں ممکن بنایا یا مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں پریس کانفرنس کے دوران نوجوانوں پر گولیوں اور پیلٹ گنوں کی بارش پر سوال پوچھا جارہا تھا تو محبوبہ جی کا فرمان تھا کہ یہ نوجوان گھروں سے دودھ اور مٹھائیوں کی خریداری کے لئے باہر نہیں آئے تھے ، جبکہ دوسرے کئی اپوزیشن لیڈر وں کے رول اور کردار کے تعلق سے بھی ’’ وہ میرا بڑا بھائی، وہ میری بہن‘‘ یا وہ جس نے خود کو بخشی مرحوم کے ثانی کا رول اداکرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کیایہ سب کچھ کشمیر کے حال اور ماضی قریب کے تعلق سے تاریخ کا حصہ اور ریکارڈ پر نہیں؟ چہروں پر نئے چہروں کا خول چڑھانے سے حقائق چھپتے نہیں!
خدارا ، لُٹے پٹے عوام کے وسیع ترمفاد، بہتر حال اور خوشحال مستقبل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے سیاسی کردار اور رول کو ترتیب دیں، ایک دوسرے پر اے ، بی ، سی ٹیموں کی طعنہ زنی اور ایک دوسرے کی کردارکشی کے روایتی خولوں سے باہر آکر ظلمت اور اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنے کیلئے خود کو وقف کریں، کشمیر اتنابڑاعلاقہ یا خطہ نہیں اور نہ ہی یہ فوجی یا اقتصادی پہلو سے کسی طاقت کا حامل ہے، یہ ایک پسماندہ اور بچھڑا خطہ ہے، جس کی آبادی کا بڑا حصہ بے روزگار ہے ، ایک اور بڑ احصہ منشیات کی لت میں مبتلا ہے ، زمین چھن رہی ہے ، جنگلات کی اراضی سکڑتی جارہی ہے ، پانی کے سوتے خشک یا دم توڑتے جارہے ہیں، مختلف نوعیت کے جرائم میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، قدرتی وسائل پر دوسرے قابض ہوتے جارہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی قبیلے حصول اقتدار اور اپنی سیاسی عیاشیوں کے لئے عوام کے حقوق اور مفادات کو قربانی کی بھینٹ چڑھانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
نہ یہ شرمسار ہے،نہ ان کے اندر ندامت ہے اور نہ ہی یہ قوم کے محسن ہیں۔
۔۔