کشمیراور جموں دونوں خطوں میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ پینے کے پانی کی سہولیات سے بدستور محروم ہے۔ یہ آبادی قرب وجوار میںدستیاب گندے اورآلودہ پانی کا روزمرہ ضروریات کی تکمیل کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اس آلودہ پانی کے مسلسل استعمال کے نتیجہ میں متعدد نوعیت کی جسمانی بیماریاں ان میں سرائیت کرتی جارہی ہے اور پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ جب ان میں سے بہت سارے لاحق مختلف نوعیت کی بیماریوں کا بوجھ برداشت نہ کرنے یا تو موزی امراض میںعمر بھر کیلئے مبتلا ہوجاتے ہیں یا امراض کا بوجھ نہ سہتے ہوئے ان پر جان کنی کی حالت طاری ہوجاتی ہے ۔
حکومت کے متعلقہ ادارے کا دعویٰ ہے کہ جموںوکشمیر کی آبادی کا تقریبا۸۱؍ فیصد پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کے دائرہ میں لایاگیا ہے جبکہ باقی ماندہ ۲۰؍ فیصد کو سپلائی کے دئراہ میں لانے کی سمت میں کام جاری ہے اور اس مقصد کیلئے دردست نئے پروجیکٹوں پر کام ہورہا ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ اس نوعیت کے دعویٰ ایک عرصہ سے سامنے آرہے ہیں اور ان دعوئوں کا باربار اعادہ اعلیٰ سطح کی میٹنگوں میںبھی کیاجارہاہے لیکن زمینی سطح پر جو حالات ہیں وہ دعوئوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی صدارت میں اگلے روز اسی نوعیت کی ایک جائزہ میٹنگ منعقد ہوئی جس میں مجموعی صورتحال کا نہ صرف ایک خاکہ پیش کیا گیا بلکہ نئے پروجیکٹوںکے حوالہ سے جاری کام کی پیش رفت کابھی جائزہ لیا گیا ۔ وزیراعلیٰ نے پائپوںکی تنصیب ،ای واٹر بلنگ، پنچایت سطح پر نگران کمیٹیوں کی تشکیل اور ان کی مانیٹرینگ وغیرہ کے حوالہ سے حکام کو ہدایت دی ، یہ ہدایات اپنی جگہ اہمیت کی حامل سہی ، البتہ زمینی سطح پر جو کچھ حالات ہیں جن میںلوگوں کو سپلائی کئے جارہے پانی کی روزانہ (فی صارف اوسطاً) سپلائی کو یقینی بنانے، پانی کے سوتوں کی نگرانی اور رکھ رکھائو ،صفائی ستھرائی کے تعلق سے انتظامات، سپلائی لائنوں میںمختلف تکنیکی خرابیوں کے پیش نظر شگافیں واقع ہونے ایسے اہمیت کے حامل معاملات کو جب تک نہ سنجیدگی سے ایڈریس کیاجاتا ہے اُس وقت تک لوگوں کو پریشانیوں کامسلسل سامنا رہے گا۔
ہم ان جگہوں اور مقامات کی نشاندہی کرکے متعلقہ محکمہ ؍ادارے کو کسی قسم کی ہزیمت سے دوچار کرنا نہیں چاہتے البتہ لوگوں کی نظروں میں بھی یہ معاملات ہیں کہ درجنوں کی تعداد میں ایسے بھی مقامات ہیں جہاں آبشاروں کی طرز پر پانی نیچے آرہا ہے لیکن ان مقامات پر اس پانی، جو بڑی مقدار اور حجم میں نیچے آرہاہے، بہکر گندی ندی نالوں کی نذر ہوتا جارہاہے۔ یہ سلسلہ مدتوں سے جاری ہے۔ ایسے مقامات کی نشاندہی ذمہ دار شہری حلقے کرتے آرہے ہیں کہ اس پانی کو Tapکیاجائے لیکن اس اہم عوامی ضروریات اور خواہش کو نظرانداز کیاجارہاہے۔ یہ وہ پانی ہے جس کو صاف کرکے سپلائی کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ شیشے کی مانندصاف وپاک ہے جبکہ کچھ جگہوں پر موجود ان آبشاروں کے بارے میں عام لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ پانی ہاضمیت سے بھر پور ہے ۔ ان مقامات کو ٹیپ کیوں نہیں کیاجارہاہے اس بارے میں محکمہ واٹر ورکس جس کو نئی اصطلاح میں اب جل شکتی کا نام دیاگیا ہے کے منتظمین ہی بہتر طور سے کچھ بتاپائیں گے ، قطع نظراس کے کہ ان کی توجہ اور ترجیحات ملٹی کروڑ پروجیکٹوں پر ہے۔
شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کو گندہ آلودہ اور غیر معیاری پانی پینے کیلئے سپلائی کرنے کا مسئلہ سالہاسال سے چلاآرہاہے ۔ دودھ گنگا پروجیکٹ اس حوالہ سے سرفہرست ہے ۔ صرف عام لوگوں ہی نہیں بلکہ قومی گرین ٹریبونل بھی اس پروجیکٹ کے حوالہ سے اب تک کئی بار نشاندہی کرچکا ہے۔ لوگ بھی شاکی ہیں کہ دودھ گنگا کی طرف غیر ذمہ دار اور ہوس پرست شہریوں کی اچھی خاصی تعداد نے اپنے پرنالوں کا رُخ کرکے رکھا ہے جو اس پانی کو آلودہ کرنے میں بُنیادی کردار اداکررہاہے۔ لیکن دودھ گنگا کی پانیوں میں یہ زہر ملانے کے ذمہ داروں کے خلاف ایڈمنسٹریشن باالخصوص بڈگام ایڈمسٹریشن مسلسل ناکام کیوں ہے یہ ایک معمہ ہے یا اُس کی طرف سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے جو ہراعتبار سے عوام دُشمنانہ اور مجرمانہ ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح دریا ئے جہلم کے بارے میں بھی قومی گرین ٹریبونل بار بار اپنی تشویشات کو زبان دیتا رہا ہے لیکن سرینگر میونسپلٹی سمیت متعلقہ بلدیاتی ادارے ا س حوالہ سے اپنی بدترین نااہلیت او رغیر ذمہ دارانہ طرزعمل کا بین ثبوت پیش کررہے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ آبادی کا ایک اچھا خاصہ حصہ دریائے جہلم کا پانی اپنی روزمرہ ضروریات کیلئے استعمال کررہاہے۔
بہرحال توقع کی جارہی ہے کہ جونئے واٹر سپلائی پروجیکٹ ہاتھ میں ہیں ان کی تکمیل اس سال مارچ تک مقرر ہ مدت کے اندر یقینی بنائی جائیگی۔ ۳۲۵۶؍ ان نئے پروجیکٹوں پر لاگت کا تخمینہ ۱۳۰۰۰؍ کروڑ روپے کا ہے ۔ ان نئے پروجیکٹوں کی تکمیل کے نتیجہ میں ۲۷۔۱۹؍ لاکھ دہی آبادی تخمینہ کے مطابق صاف پانی استعمال کرنے کی دہلیز پر دستک دیتی نظرآئیگی۔ خدا کرے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو۔
سرینگر میںشہر کی آبادی کے ایک اور حصے کو ڈل جھیل سے لفٹ کئے جارہے پانی کو ’صاف‘ کرکے فراہم کیاجارہاہے۔ لیکن ڈل کا جو کیچ منٹ ایریا ہے وہاں سے خارج ہورہے گندگی اور غلاظت سے بھر پور پانی سیدھے ڈل جھیل میںڈالاجارہاہے۔ یہ ایک پرانی بیماری ہے جس بیماری کا علاج نہ متعلقہ سرکاری محکموں کے پاس ہے اور نہ ہی ان مخصوص علاقوں میں رہائش پذیر آبادی اپنی اس دیرینہ بیماری کا علاج کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاریخ کی کتابوں، سفر ناموں اور داستانوں پر اعتبار کیاجائے، نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے، تو دعویٰ یہ ہے کہ ڈل جھیل ، دودھ گنگا اور دوسرے پانی کے وسائل سے پانی بغیر فلٹر کے روزمرہ استعمال میںلایا جاتارہا اور ان پانیوں کے استعمال سے کوئی بیماری لاحق نہیں ہوا کرتی تھی۔ لیکن وقت گذرتے سب کچھ بدل گیا، لوگوں کی عادتیں اور ترجیحات بھی تبدیل ہوتی گئی البتہ سب سے اہم ہم سب کی بحیثیت مجموعی عادات واطوار، اعلیٰ روایات، قدریں بدل گئیں ،جبکہ پاک اور ناپاک کی تمیز بھی ہماری ترجیحات سے غائب ہے۔