حکومت نے ابھی چند روز قبل انتظامیہ، ترقیات اور روزمرہ معمولات کے شعبوں میں کفایت شعاری سے کام لینے کے احکامات صادر کئے ہیں جبکہ رواں مالی سال کے لئے مختص فنڈز میں بحیثیت مجموعی دس فیصد کٹوتی کا بھی فرمان جاری کردیا ہے۔ حکومت کے یہ احکامات ایک ایسے وقت یا مرحلہ پر صادر کئے گئے جب رواں مالی سال اپنے آخری ایام میں داخل ہورہاہے، مختلف کاموں کی ادائیگی کیلئے کروڑوں روپے مالیت کی بلیں التواء میں پڑی ہیں، ملازمین کے جی پی فنڈ سے رقومات نکالنے پر ایک طرح سے بریک لگادی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کے قدم کی سراہنا کی جارہی ہے۔
لیکن کچھ چبھتے سوالات بھی سامنے لائے جارہے ہیں۔ جموںوکشمیر بحیثیت یوٹی اب گذشتہ ۵؍سالوں سے ہے اور ان گذرے برسوں کے دوران کسی ایک بھی مرحلہ پر کفایت شعاری کے حوالہ سے کوئی حکم نامہ یا ہدایت نامہ اجرا نہیں ہوا ۔ لیکن اب کیوں؟ کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں کررہا ہے کہ یوٹی فی الوقت سنگین مالیاتی خسارہ سے جھوج رہی ہے۔ اس کفایت شعاری کے حکم کے پیچھے یہ امرکارفرما ہے کہ چونکہ یوٹی میں عوام کی منتخب حکومت اقتدار میں آئی ہے اور اس کے اپنے لوازمات کی تکمیل کیلئے مناسب اخراجات بھی درکار ہوں گے، لہٰذا ان تصرفات پر روک لگانے کیلئے کفایت شعاری کا راستہ اختیار کیاگیا۔
لیکن یہ ایک مفروضہ ہے ، کفایت شعاری کا راستہ اختیار کرنے کے پیچھے اصل وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ واقعی مالیاتی خسارہ کاسامنا ہے۔ یہ خسارہ حالیہ برسوں میںحجم کے اعتبار سے بڑھتا ہی گیا اور اب صورتحال سے نمٹنے کے لئے بجٹ میں دس فیصد مالیاتی کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر واقعی مالیاتی شعبے میں صورتحال ابتر ہے تو حالیہ منتخب ممبران اسمبلی اور چھ نفری کابینہ سمیت وزیراعلیٰ کی کانوائے کیلئے جدید ساخت کی گاڑیاں خریدنے کی کیا ضرورت تھی اور اس کے لئے تقریباً تین سو کروڑ روپے کا خطیر سرمایہ مختص کردیاگیا۔
یوٹی سے قبل بحیثیت ریاست کے وزراء کی ایک لمبی فوج ہوا کرتی تھی اور ان کیلئے جدید ساخت کی گاڑیوں کا فلیٹ بھی ہواکرتا تھا وہ گاڑیاں کہاں گئیں ، کن وی آئی پی کے استعمال میں ہیں۔ کفایت شعاری کا فیصلہ کا عوامی اور سیاسی سطح پر والہانہ خیر مقدم کیا جاتا اگر تین سو کروڑ روپے مالیت کی نئی گاڑیوں کی خریداری کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، لیکن نہیں کیاگیا، اب اس فیصلہ کی رئو سے ظاہر ہے ترقیاتی کام بڑے پیمانے پر متاثر ہورہے ہیں ، ادائیگیوں کے حوالہ سے معاملات مزید التواء میں چلے جائیں گے، جبکہ کوئی نیاکام بھی ہاتھ میں نہیں لیاجائیگا۔
چار پانچ سالہ یوٹی دور کے دوران ملازمین کے حق میں مرکزی سطح پر مہنگائی الائونس میں اضافہ کا اطلاق بحیثیت مجموعی یوٹی کے ملازمین پر فوری طور سے ہوا کرتا تھا اور ادائیگیاں بھی کم وبیش دو، تین مہینوں کے اندر اندر ہوا کرتی تھی، لیکن اب کی بار ایسانہیں ہوا، جولائی میں مہنگائی بھتہ تین فیصد شرح کے حساسب سے منظور کیاگیا لیکن یوٹی کے ملازمین انتظار میں ہیں۔ ساتھ ہی ملازمین کے مختلف شعبوں سے وابستہ کئی ایک معاملات اور مانگیں بھی التواء میں ہیں۔ اگر چہ ملازمین نے اعلیٰ حکام کی یقین دہانی پر اپنے حالیہ احتجاج کو موخر کردیا ہے لیکن وہ حتمی فیصلہ کے منتظر ہیں۔
ملازمین اپنے جی پی فنڈ کھاتوں سے اپنی روزمرہ ضروریات کی تکمیل کیلئے کوئی رقم وقت پر حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ جی پی فنڈ کھاتوں سے رقومات کی ادائیگی کو ملازمین کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف کردیا گیا ہے۔ کسی ملازم کو شادی بیاہ یا کسی دوسری حاجت کیلئے اپنے کھاتے سے رقم درکا ر ہے تو اس ادائیگی کیلئے کئی کئی مہینے لمبی ہوتی جارہی قطار میں کھڑا رہنے کیلئے مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ جبکہ واقعی کسی ضرورت کیلئے رقم درکار ہے توا س کیلئے دستاویزی ثبوت بھی طلب کئے جارہے ہیں۔
حالیہ ایام میں کئی محکموں سے وابستہ ملازمین، ورکر اور دوسرے وابستہ گان اپنی ماہانہ وصولیابیوں کیلئے سڑکوں پر سراپا احتجا ج نظرآئے یہاں تک کہ ایک طبقہ وہ بھی تھا جن کا دعویٰ تھا کہ انہیں روزانہ یومیہ کام کے عوض صرف تیس روپے ادا کئے جارہے ہیں جبکہ یہ ادائیگی بھی کئی کئی مہینوں کی تاخیر کے بعد اس کی بھی نصف کٹوتی کے ساتھ اداکی جارہی ہے۔ پنشنروں کے بھی کئی مسائل ہیں۔ حالیہ ایام میں ان کے وفود لیفٹیننٹ گورنر سے لے کر اعلیٰ بیروکریٹوں کے دفاتر کا طواف کرتے دیکھے گئے اور اپنے مطالبات کے حوالہ سے میمورنڈم بھی پیش کئے۔ تاحال وہ بھی کسی مثبت جواب؍ فیصلہ کے منتظر ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ نیشنل کانفرنس نے اپنے چنائو منشور میں پنشنروں کے ماہانہ پنشن اور میڈیکل الائونس میںاضافہ کا وعدہ کررکھاہے۔
کفایت شعاری کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن زمینی سطح پر یہ کفایت شعاری محسوس بھی ہونی چاہئے اور نظربھی آنی چاہئے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران انتظامیہ کے مختلف شعبوں کی جانب سے نئے نئے پروجیکٹ ہاتھ میں لئے جارہے ہیں، ان پروجیکٹوں کیلئے مختلف نوعیت کی رپورٹیں مرتب کرنے،ا ٓئی ٹی سے وابستہ سیکٹروں کی خدمات حاصل کرنے، ماہرین کے ساتھ مشاورت کے مراحل طے کرنے کیلئے بہت سارے معاملات کو ’’ اوٹ سورس ‘‘ کرنے کا طریقہ کار روز کا معمول بنایاجاتا رہا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود اپنی انتظامیہ کے مختلف شعبوں کے اندر اتنی صلاحیت اور ذہانت موجود ہے کہ وہ کچھ بھی اختراع اور وضع کرسکیں، لیکن اوٹ سورس کو معمول کا چلن بناکر اس مد پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے جو سٹیٹ کے خزانہ عامرہ پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بن چکا ہے۔ کفایت شعاری کا راستہ اختیار کرکے اس روزمرہ لت سے چھٹکارا ناگزیر بن چکا ہے۔
دو سابق ضلعوں پر مشتمل کرگل اور لداخ بھی جموں وکشمیر کی طرح یوٹی ہے لیکن اُس یوٹی کو کسی بھی شعبے کے حوالہ سے پریشانیوں کا سامنانہیں ہے۔ مالیاتی امداد کے حوالہ سے لداخ یوٹی کو جموںوکشمیر یوٹی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مرکز کی طرف سے کئی گنا مالیاتی امداد وقف رکھی جارہی ہے جبکہ ابھی چند ہی روز قبل مرکزکی طرف سے مزید ایک ہزار کروڑ روپے کی اضافی رقم بھی واگذار کی گئی۔ حساس عوامی حلقے موازنہ کے تعلق سے اس پر بھی قریبی نظر رکھ رہے ہیں جبکہ کئی ایک معاملات کے تعلق سے ان کے اندر یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ لداخ یوٹی سے وابستہ آبادی کو ہر سطح پر سہولیات فراہم کی جارہی ہے لیکن جموں وکشمیر کے ساتھ قدرے امتیاز سے کام لیاجارہاہے۔
بہرحال کفایت شعاری کی تلوار اب نئی بھریتوں پر بھی لٹکتی نظرآرہی ہے۔ دو سال سے جن محکموں میںاسامیاں خالی پڑی ہیں ان پر بھرتی عمل پر پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ کہا گیا کہ یہ اسامیاں اب فریز Freezeکی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ پہلے سے بے روزگار وں کی فوج میں مزید اضافہ کا موجب بن جائے گا جس کے ساتھ ہی جموںوکشمیر کیلئے نئے مگر سنگین نوعیت کے مسائل اُبھر کر سامنے آئینگے۔