ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے اب تک بحیثیت مجموعی آواز کشمیر نشین سیاسی ودیگر جماعتوں کی جانب سے بلند کی جاتی رہی ہے جس میں خاص طور سے حکمران جماعت نیشنل کانفرنس ، اپوزیشن پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس پیش پیش ہے ۔ کانگریس کا یوٹی یونٹ اس حوالہ سے قدرے سبقت لیتا رہا البتہ جموں قدرے خاموش ہی ہے۔ اگر چہ نجی سطح پر لوگوں کی اکثریت اپنی اس خواہش کا اظہار کرتی رہی ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیا جانا چاہئے لیکن جموں سے منتخبہ ارکان اسمبلی بدستور خاموش ہیں البتہ جب کبھی کسی وجہ سے وہ ریاستی درجہ کے حوالہ سے بات کرتے ہیں تو ان کا یہی عمومی جواب رہتا ہے کہ مرکز ریاستی درجہ کی بحالی کے اپنے وعدے پر قائم ہے۔
ٍٍٍ لیکن اب جموں سے بھی ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے کچھ ایک معتبر حلقوں کے علاوہ کئی دوسرے حلقوں بشمول کاروباری اور تجارتی ادارے بھی ریاستی درجہ کی بحالی کی بات کررہے ہیں۔ سابق صدر ریاست اور کانگریس کے سینئر لیڈر ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں ریاستی درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ انکار اب قابل قبول نہیں ۔نہ صرف ریاستی درجہ کی بحالی بلکہ زمین کے ملکیتی حقوق کے تعلق سے ڈاکٹر کرن سنگھ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ زمین پر لوگوں کے ملکیتی حقوق کا تحفظ ہماچل پردیش میں رائج اور نافذ العمل قانون کے مطابق یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور باتوں کے علاوہ ڈاکٹر کرن سنگھ نے ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد ہور ہی تبدیلیوں پر اپنی تشویش کااظہار کیا ہے۔ ریاست کی مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں منتقلی سابق ریاست کی تنزلی ہے اور یہ ناقابل قبو ل ہے۔
ڈاکٹر کرن سنگھ اب تک قدرے خاموش رہے ہیں اور اگر کبھی کبھار انہوںنے جموں وکشمیر کے حوالہ سے بات کی بھی ہے تو اشاروں اور کنایوں میں لیکن یہ اب پہلا مرتبہ ہے کہ جب سابق والی ریاست نے نہ صرف کھل کر بات کی ہے بلکہ جموں وکشمیر کی ریاست کی حیثیت سے محرومی اور زمین کی ملکیتی حقوق کے تحفظ کے تعلق سے واضح اور دوٹوک بیان دیا ہے ۔ ڈاکٹر کرن سنگھ کے اس موقف سے جموں کے اُن حلقوں جو اب تک کسی نہ کسی مصلحت یا کارن کے قدرے خاموش ہی رہے ہیں کو زبان ملتی محسوس ہورہی ہے اور وہ بھی اب کھل کر ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے آواز بلند کرنے کی دوڑ میں شامل نظرآرتے رہینگے۔
جموں کا سنجیدہ ، کاروباری اور حساس حلقہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جموں نشین بی جے پی کے منتخبہ ارکان اور بحیثیت مجموعی پارٹی کا جموں یونٹ کیوں اس اہم اور حساس اشو پر بات نہیں کررہا ہے اور کیوں ہز ماسٹرس وائس کا سا رول اداکرکے خطے کے مفادات کے حصول اور تحفظ کو مسلسل نظرانداز کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ حلقے یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ اگر بی جے پی کو مکمل عوامی منڈیٹ حاصل ہوا ہوتا اور برسر اقتدار آئی ہوتی تو کیا اُس صورت بھی وہ ریاستی درجہ کی بحالی پر خاموش ہی رہتی؟ غالباً نہیں۔
بہرحال اب جو کچھ بھی ہے منتخبہ ارکان اسمبلی خطے کی مجموعی ترقی، مفادات اور حقوق کے حصول اور تحفظ کو یقینی بنانے، عوام کو زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے درپیش گونا گوں مسائل کا آبرومندانہ حل تلاش کرنے اور عوام کے لئے راحتی اقدامات کی خاطر اپنی سوچ اور اپروچ میں مثبت اور متوازن تبدیلی لاتے ہوئے اپنا کردارادا کرنے کیلئے کمربستہ ہوناچاہئے۔ یوٹی یا ریاست نہ نیشنل کانفرنس کی جاگیر یا فف ڈم ہے اور نہ بی جے پی یا او رکسی کی یہاں کے لوگ سرداری کا حق بھی رکھتے ہیں اور اپنے ترقیات کی سمت میں خود روڈ میپ مرتب کرکے فیصلہ سازی کا پیدائشی حق اور اختیار رکھتے ہیں ۔ لوگوں کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ انکار جمہوری نظام اور فیڈرل طرز حکومت کی صریح ضد ہے۔
نیشنل کانفرنس کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ اس مخصوص اشو پر لڑائی میں الجھنا نہیں چاہتے اور عدالت سے رجوع کرنے کے سوال یا آپشن کوآخری آپشن خیال کرتے ہیں ۔ وہ بار بار اس اُمید کو زبان دے رہے ہیں کہ وزیراعظم ، وزیرداخلہ اور بحیثیت مجموعی حکومت نے پارلیمنٹ کے اندر اور سپریم کورٹ کے سامنے بھی وعدہ کررکھا ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے گذشتہ سال کے فیصلے کے ایک حصے کے طور ریاستی درجہ کی جلد بحالی کیلئے کہا ہے ۔ ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر گیا اب جلد فیصلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔
لیکن اسی دوران پارٹی کی جموں اکائی کے جنرل سیکریٹری اور سابق وزیر اجے سدھو ترانے پارٹی ورکروں اور عہدیداروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی درجہ کی مانگ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے سیدھے طور سے جموں نشین بی جے پی یونٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔لوگ بھی اس بات کو اب محسوس کرنے لگ گئے ہیں کہ نہ صرف جموں یونٹ کے لیڈر شپ بلکہ منتخبہ ارکان اسمبلی بھی اس مخصوص اشو پر خاموش رہ کر جموںوکشمیر کے عوام کے مجموعی مفادات کونقصانات سے ہم کنار کرنے میںاپنا کرداراداکررہے ہیں۔ ممکن ہے یہ محض ایک قیاس یا مفروضہ ہو لیکن سرسری سطح پر جو کچھ محسوس ہورہا ہے اور نظر بھی آرہا ہے وہ اسی نتیجہ کی طرف اشارہ کررہاہے ۔
انتظامیہ اور گورننس کے تعلق سے دوہرا ماڈل کسی بھی حوالہ سے ثمرآور نہیں، بلکہ گورننس کا یہ ماڈل خود اپنے اندر جہاں تباہی کا سامان لئے ہوئے ہے وہیں یہ ماڈل ’’سٹیٹ کے اندر سٹیٹ‘‘ کو بھی جنم دیتا جارہا ہے۔ پروٹوکول بھی کیجولٹی کی فہرست میں شامل ہوتا جارہا ہے، فیصلہ سازی ، اختیارات اور عمل آوری کے حوالہ سے معاملات تقسیم درتقسیم اور انتشار کا باعث بنتے جارہے ہیں ، محاسبہ اور نگہداشت کا عمل حاشیہ پر چلا جارہا ہے، نتیجہ میں کورپشن ، بدعنوانی اور ناقص کاکردگی جہاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے وہیں ورک کلچر بھی بڑی سبک رفتاری کے ساتھ دم توڑتا جارہا ہے۔
لااینڈ آرڈ اگر چہ موجودہ طرز گورننس کے تعلق سے ایل جی کے دائرہ اختیارات میں ہے لیکن اس کو موثریت کے خطوط پر ہموار اورآراستہ کرنے کی سمت میںمنتخبہ عوامی نمائندوں کا بھی اہم کردار ہے، لیکن فی الوقت وہ ارکان اس ذمہ داری سے بری ہیں جوکہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔ حرب وضرب کے بل بوتے پر امن وقانون کی فضا کا قیام قطعاً دائمی نہیں ہوسکتی اور جب تک نہ عوام کا اشتراک عمل حاصل کیاجائے دائمی قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں بن سکتا۔