سال ۲۰۲۵ء کے لئے سرکاری تعطیلات کا کلینڈر جاری کردیاگیا ہے۔ اس کلینڈر میں مزید نہ کوئی تحریف عمل میں لائی گئی ہے اور نہ ہی تجدید بلکہ چھٹیوں کے حوالہ سے یہی کلینڈر ۲۰۱۹ء سے سرکاری طور پر اجرا کیا جارہاہے۔اُس وقت تک مرحوم شیخ محمدعبداللہ کے یوم پیدائش اور ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ء کے شہدائے کشمیرکی یادمیں تعطیلات منائی جاتی تھی لیکن ان دونوں چھٹیوں کو جموں کے دبائو میں آکر کلینڈر سے ختم کردیاگیا اور ان کی جگہ ۲۳؍ ستمبر کو مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب یوم تعطیل قراردیاگیا۔
حالیہ اسمبلی الیکشن کے بعد نیشنل کانفرنس کی حکومت نے ان دونوں چھٹیوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن جب لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت اور سرپرستی میں انتظامیہ نے کلینڈر اجراء کیا تو ان دونوں چھٹیوں کا کہیں کوئی تذکرہ یا حوالہ نہیں تھا۔ نیشنل کانفرنس نے فطرتی طور پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا اور واضح کیا کہ عمر عبداللہ کی قیادت میں کابینہ نے لیفٹیننٹ گورنر کو یہ دونوں تعطیلات بحال کرنے کیلئے سفارش پیش کی تھی لیکن انتظامیہ نے سفارش کو کسی اہمیت یا نوٹس کا حامل نہ سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا۔ البتہ وقت آنے پر کسی نہ کسی دن ان دونوں تعطیلات کوبحال کردیاجائے گا۔ نیشنل کانفرنس کے اتحادی محمدیوسف تاریگامی نے بھی ان دومخصوص ایام کو چھٹیوں کے سرکاری کلینڈر میںشامل نہ کرنے پر انتظامیہ کی شدید مذمت کی۔
جب ۵؍ دسمبر مرحوم شیخ محمدعبداللہ کی یوم پیدائش کی یادمیں سرکاری تعطیل اور ۱۳؍ جولائی کے شہداء کی یاد سے منسوب سرکاری چھٹی منسوخ کی گئی تھی تو نیشنل کانفرنس اُسوقت اقتدار میں تھی اور نہ اپوزیشن میں۔ البتہ نرم لہجہ میں احتجاج ضرور درج کرایا گیا۔ لیکن اب جبکہ نیشنل کانفرنس کی حکومت اقتدارمیں ہے اس کے باوجود یہ دونوں تعطیلات بحال نہیں کی جاسکی۔ اس کے برعکس ان دونوں چھٹیوں کو منسوخی کی فہرست میں بدستور شامل رکھ کر جموںنشین بی جے پی کی طر ف سے خیر مقدم کیا جارہاہے۔
دونوں تعطیلات کو کلینڈر کا حصہ نہ بناتے ہوئے گورنر ایڈمنسٹریشن نے منتخبہ عوامی حکومت کو دوٹوک اور واضح پیغام دیدیا ہے کہ ا نکی حیثیت لنگڑی ہے، بے اختیار ہے جبکہ یہ فیصلہ سازبھی نہیں۔ یہ پیغام انتظامیہ کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی امورات کے حوالہ سے بھی اتنا ہی واضح اور دوٹوک ہے۔ جس حکومت کے حد اختیار میں محض ایک دو دن کی تعطیلات کا فیصلہ لینے کا اختیار نہیں وہ حکومت عوام کو درپیش روزمرہ کے گونا گوں مسائل اور معاملات کا مداوا کیسے کرپائیگی؟ گورنر ایڈمنسٹریشن کا یہ پیغام اب تک واضح طور سے عوام تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت کی تشکیل کو زائد از دو مہینے گذر گئے اور آنے والے چند روزمیں عمرعبداللہ کی حکومت اپنے برسراقتدار آنے کے ۱۰۰؍ دن پوری کرنے کی دہلیز پر دستک دیتی نظرآئیگی۔
کوئی بھی نئی حکومت اپنے پہلے ۱۰۰؍ دنوں کی جمع پونجی (کارکردگی) کا حساب بڑے فخر کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ یہی عمومی روایت رہی ہے۔ لیکن نیشنل کانفرنس کی سرپرستی میں حکومت کے پاس ابھی ایسا کچھ نہیں ہے جس کو وہ اپنی کارکردگی کے حوالہ سے اُس عوامی دربارمیں پیش کرے جس عوامی دربار نے تمام تر ازموں کو حاشیہ پر رکھتے ہوئے ایک آواز بنکر اپنا منڈیٹ تفویض کیا۔ لیکن اس منڈیٹ کا احترام فی الوقت تک کہیں کسی معتبر حلقے کی جانب سے نہیں دیکھا جاسکا ہے۔
باربار سوال کیا جارہاہے کہ اختیارات کے حوالہ سے بزنس رولز کب تک تیار ہوکر دستیاب ہوں گے تو بجائے اس کے کوئی دوٹوک جواب دیا جاتا یہ کہاجارہا ہے کہ کیا آپ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم دفاتر کا معائنہ کررہے ہیں، ورک کلچر کو یقینی بناتے ہوئے مسلسل جائزہ لیاجارہاہے ، ایڈمنسٹریشن کے ساتھ اجلاس منعقد کئے جارہے ہیں اور ترقیاتی پیش رفت پر نظر رکھی جارہی ہے، کیا یہ بزنس رولز کا حصہ نہیں؟ اس نوعیت کے جواب سامنے آنے پر واقعی حیرت ہورہی ہے۔
بے شک یادوں سے منسوب تعطیلات کی اپنی ایک تاریخی اور منفرد حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے، ان سے انکار کی گنجائش نہیں، فرض کریں یہ دونوں منسوخ شدہ یادگاری تعطیلات بحال بھی ہوجاتی ہیں تو ان کو مناکر کیا لاکھوں بے روزگاروں کے پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا ہوگا، کیا منشیات کی لت میں مبتلا لاکھوں اس لت سے چھٹکارا پائیں گے، کیا نامعلوم مقاصد کیلئے ہزاروں کنال زرعی اور ہارٹیکلچر اراضیاں ان کے مالکان کی ملکیت میںہی رہ پائیگی ، ان سارے سوالوں کے آگے بڑے سوالیہ ہیں۔
اب حالت یہ ہے کہ سنجیدہ حلقے سوال کررہے ہیں کہ نیشنل کانفرنس اتنا بھاری بھرکم عوامی منڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود سنجیدہ اور حساس نوعیت کے اشوز کو ایڈریس کرنے کے بجائے کہاں اور کدھر کی طرف بھٹک رہی ہے۔ ریزرویشن کے اشو پر اس کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے آواز بلند کی جس آواز میں پوری جموںاور کشمیر سے تعلق رکھنے والے اس مخصوص ریزرویشن سے وابستگان بھی آواز بلند کررہے ہیں لیکن پارٹی کی قیادت نے اس آواز کے ساتھ اپنی آواز ملانے کی بجائے اس کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہی نہیں قراردیا بلکہ ممبر پارلیمنٹ کو کسی طاقت کا مہرہ بھی قرار دیا اور پارٹی کے دشمنوں کو بھی اپنی صف میں شامل ہونے کی دعوت کا بھونڈا اور بیہودہ الزام عائد کردیا۔ اگر احتجاج پارٹی ڈسپلن کی خلا ف ورزی تھی تو وزیراعلیٰ کا صاحبزادہ احتجاجیوں کے ساتھ کھڑا کیوں تھا؟ یہ پالیسی یا طریقہ کار بہت پرانا ہے،آج کے حالات میںیہ بچپناہضم نہیں ہوگا۔
عوامی خواہشات کا احترام مقدم اور لازم ہے۔ کٹرہ میں روپ وے پروجیکٹ کے خلاف کئی روز سے مقامی آبادی سڑک پر سراپا احتجاج ہے۔ کم وبیش سبھی پارٹیوں نے احتجاج کی حمایت کی ۔ نیشنل کانفرنس کا نائب وزیراعلیٰ پارٹی کے صوبائی صدر رتن لال گپتا کے ہمراہ کٹرہ میں احتجاجیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ سارے لوگ مقامی آبادی کی حمایت میں سڑکوں پر آرہے ہیں۔ لیکن کشمیرمیں پلوامہ میں ساڑھے چار ہزار کنال اراضی اورنئی رنگ روڈ کے اطراف میں ٹائون شپ کی تعمیر کیلئے زرعی اراضی کاحصول کے خلاف سارے لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن نہ منتخبہ اسمبلی ممبران کہیں نظرآرہے ہیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اب تک کوئی تسلی بخش ردعمل ہی سامنے آیا ہے ۔ لیکن تعطیلات کے حوالہ سے ردعمل دھڑا دھڑ سامنے لایاجارہاہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے یا یہ تاثر بھی دیاجارہاہے کہ جیسے کشمیر اور کشمیریوں سے ساری متاع زندگی چھین لی گئی ہے۔
۔