اتوار, مئی 11, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

بجلی بحران کا اصل ذمہ دار مرکز اور ریاست ہے 

نئے پروجیکٹوں کی تعمیر کے بعد بھی بحران جاری رہیگا

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-12-25
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

کشمیربجلی کے ایک اور سنگین بحران سے جھوج رہا ہے۔بجلی کا یہ بحران کشمیر اور اہل کشمیر کیلئے نیا نہیں بلکہ اس بحران کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ سردیوں کے ان یخ بستہ ایام میں اہل وادی کو کن کن کٹھنائیوں ، دشواریوں ، مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہاہے وہ اب محتاج بیان نہیںرہا، البتہ اہل وادی اس سوال کاجواب تلاش بھی کررہے ہیں اور سرینگر سے دہلی تک کے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں سے بھی جواب مانگ رہے ہیں کہ اس بحران کا ذمہ دار کون ہے، کیوں اہل وادی کو گرمی ہو یا سردی کے ایام میں ان بحرانوں کا سامنا کر نا پڑرہا ہے جبکہ ہر صاحب اقتدار ،مرکزی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی سال کے ۷x۲۴؍ دعویٰ کرتے رہے کہ بجلی کے شعبے میں جموںوکشمیر خود کفالت کی راہ پرگامزن ہے، بجلی کے ترسیلی اور گرڈ نظاموں کو مطلوبہ ضرورت کے مطابق مستحکم بنایاگیاہے، بقول لیفٹیننٹ گورنر کے ایک حالیہ تقریر جس میں وہ یہ کہتے بلکہ یقین بھی دلاتے سنے جارہے ہیں کہ میٹروالے علاقوں کے صارفین کو ایک گھنٹہ تو کیا ایک منٹ کیلئے بھی بجلی کٹوتی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
بے شک وزیراعلیٰ اس پُرتشویش اور تکلیف دہ صورتحال پر ذاتی طور نگاہ رکھنے ، مانیٹر کرنے اور دوسرے مطلوبہ اقدامات کی عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے سرینگر میں موجود ہیں اوراعلیٰ حکام کے ساتھ میٹنگ میں بھی شرکت کی ہے۔لیکن اس میٹنگ کا نچوڑ یہ ہے کہ کٹوتی پر وگرام پر سختی سے عمل کیاجائے اس کے آگے فل سٹاپ ہی نظرآرہے ہیں۔ یہ ایک پہلو ہے، اس میٹنگ کے چند ہی گھنٹے گذرے تھے کہ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر نے ایک میزائل نما بیان داغ کر وزیراعلیٰ سے فوراً مستعفی ہونے کا یہ کہکر مطالبہ کردیا کہ وہ اور اس کی ایڈمنسٹریشن سردیوں کے ان ٹھٹھرتے ایام میں بجلی اور پانی کی سپلائی کو یقینی بنانے میں چونکہ ناکام ہے لہٰذا وہ اقتدار سے ہٹ جائے بصورت دیگر پارٹی آنے والے ایام میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرے گی۔
(مذکورہ سیاستدان کی تسلی وتشفی کی خاطر ہم وزیراعلیٰ کو یہی مخلصانہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ چونکہ انہیں اقتدار بڑی مشکل اور لمبی جدوجہد کے بعد پھر سے ہاتھ آیا ہے لہٰذا مستعفی ہونے کی بجائے وہ اپنی رہائش گاہ واقع گپکار میںاُس نے پانی کے جو ذخائر اور بجلی کا سٹاک مقفل کررکھے ہیں اُن کے تالے کھولدیں اور اپنے وسیع تر مفادات میں اپنا اقتدار بچائیں)۔
بہرحال حقیقت کی دُنیا میں واپس آتے بُنیادی سوال یہی ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کشمیر اور جموں کے دریائوں پر کئی بجلی پروجیکٹ تعمیر کئے گئے جبکہ مزید کچھ نئے پروجیکٹوں کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیاجارہا ہے۔ یہ سارے پروجیکٹ انجینئرنگ کی اصطلاح میں رن آف دی ریور ہیں، یعنی دریائوںمیں جس قدر پانی کا بہائو ہوگا اُسی بقدر بجلی کی پیداوار بھی ہوگی۔ اس حوالہ سے جموںوکشمیر میں بجلی کی پیداواری صلاحیت یا گنجائش کا تخمینہ ۱۸۰۰۰؍ میگاواٹ ہے جس میں سے اب تک ۱۴۸۶۷؍ میگاواٹ کی نشاندہی تو ہو چکی ہے لیکن اصل حاصل بحیثیت مجموعی ۶۵.۳۵۲۶میگاواٹ یعنی صرف ۷۲۔۲۳؍ فیصد ہی پیداوار حاصل ہورہی ہے اگلے ۲؍برسوں یعنی ۲۰۲۶تک یہ پیداوار ۶۶۴۷ میگاواٹ تک پہنچ جانے کا دعویٰ ریکارڈ پر ہے۔
یہ اعداد وشمارات بہت لبھاونے ہیں، تسلی بھی اور اطمینان کی لہر بھی دوڑی محسوس کی جارہی ہے لیکن بحیثیت مجموعی کشمیر اور جموں کے لوگوں کو اس مجوزہ پیداوار سے کیا ملے گا، کون سی راحت کی نوید اس میں پوشیدہ ہے، البتہ جموںوکشمیر کی سرحدوں سے باہر جو ریاستیں اور لوگ اور کارخانے ہیں یہ خبر ان کے لہو کو مزید گرما نے کیلئے ایک اور نوید ثابت ہوسکتی ہے۔
جموںوکشمیر میں دہائیوں سے جاری بجلی بحران کی اصل ذمہ داری کا تعین کرنے میں کوئی دشواری نہیں، کئی دہائیوں تک مرکز میں کانگریس کا راج رہا اور اس کے بعد کانگریس کا سیاسی زوال شروع ہوا تو دوسری کئی پارٹیوںنے انفرادی یا مخلوط طرز سے عبارت اقتدار سنبھالا۔ فی الوقت بی جے پی اپنے اقتدار کے ۱۱؍ویں سال میں ہے۔ ان سارے اقتدار پرفائز ذمہ داروںنے جموںوکشمیر میں پیدا بجلی پر ہاتھ مارے اور ۹۰؍ فیصد تک بجلی جموں وکشمیر سے باہر منتقل کرتے رہے۔ کانگریس اقتدار میں تھی تو نیشنل کانفرنس کی حکومت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں یہاں برسراقتدار تھی۔ انہوںنے مرکز کے دبائو میں آکر یا مرکز کی ہدایت یافرمائش پر اُسوقت کے وزیربجلی کمار ا منگلم کے ساتھ ایک مفاہمت نامے پر دستخط کردیئے اور یوں بجلی پروجیکٹ مرکز کی تحویل میں چلے گئے۔
وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور اقتدارمیں رنگا راجن پر مشتمل کمیٹی  نے سفارش کی کہ دو بجلی پروجیکٹ جموں وکشمیر کو منتقل کئے جائیںتاکہ یہاں کی حکومت لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتی رہے۔ ادائیگی یا معاوضہ کا بھی تعین کیاگیا، عمر کی اُس وقت کی مخلوط حکومت نے بجلی پروجیکٹوں کے زیر استعمال پانی سے حاصل لیوی کو مخصوص کردیا لیکن جب مرکز سے سفارشات کی روشنی میں بات چیت کا آغاز کردیاگیا تو این ایچ پی سی کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے کھلی دھمکی دی کہ اگر پروجیکٹوں کی واپسی کے مطالبے سے جموں وکشمیر دستبردار نہ ہوئی تو جموں وکشمیر کے عوام کوسنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس دھمکی پر مرکز نے کوئی ایکشن نہ لی، پروجیکٹوں کی واپسی کا معاملہ پھر سرد خانے کی نذر ہوگیا، اسی پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ ۵؍اگست۲۰۱۹ء کے بعد سے جو نئے پروجیکٹ مرتب کئے گئے انہیں بھی مختلف بجلی کمپنیوں کی گودمیں نہ صرف پلیٹ پر رکھ کر سجاکے ڈالاگیا بلکہ کمپنیوں کے لئے ناقابل یقین مراعات تک کا اعلان کیاگیا۔
جن مفاہمت ناموں پر دستخط ہوتے رہے ان کے مطابق کمپنیوں سے پانی کے چارجز وصول نہیں کئے جائیں گے، رائلٹی کے طور جو کچھ یونٹ جموںوکشمیر کو فراہم کئے جانے مطلوب ہیں ان کا حجم بھی گھٹا دیاگیا، آنے والے ۱۲؍برسوں تک ریاست ان نئے پروجیکٹوں سے کسی بھی طور سے مستفید نہیں ہوگی، چالیس سال تک بجلی کی سپلائی کیلئے دوردراز کی ریاست راجستھان کے ساتھ معاہدہ کرلیاگیا، یہ منظرنامہ خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جموں وکشمیرکے وسائل کاناجائز استحصال کیاجارہا ہے ، عوام کو بحیثیت مجموعی ان کے پشتنی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، حکومت کو پانی کے استعمال سے لیوی کی صورت میں جو آمدن متوقع ہوسکتی ہے اُس سے ریاست کو محروم کردیاگیا ہے جبکہ لوگوں کو اپنی بجلی کی ضرورت کیلئے انہیں شمالی گرڈ سے وہی بجلی بھاری قیمت اداکرکے حاصل کرنا پڑرہی ہے جو بجلی ان کے اپنے دریائوں اور ان دریائوں کے پانیوں کا استعمال کرنے سے پیدا کی جارہی ہے۔
کشمیر خطہ ہو یا جموں خطہ،بجلی کے استعمال، ٹرانسمیشن نقصانات ، حاصل آمدنی، وی آئی پی کلچر کی نذر ہوتی جارہی بجلی کی اچھی خاصی مفت مقدار اور دوسرے کئی پہلو ہیں جو غورطلب بھی ہیں اور جواب کا بھی تقاضہ کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان مخصوص پہلوئوں کو چھپانے کیلئے لوگوں کو بجلی چوری یا ناجائز استعمال کا مسلسل طعنہ دیاجارہا ہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

ریزرویشن :سیاست میں سیاست؟

Next Post

ویسٹ انڈیز نے دورہ پاکستان کیلئے اسکواڈ کا اعلان کردیا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post

ویسٹ انڈیز نے دورہ پاکستان کیلئے اسکواڈ کا اعلان کردیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.