پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا ایک اور سیشن فریقین کی ضد،ہٹ دھرمی، مائی وے آر ہائی وے، نظریاتی اور سیاسی بالادستی، طاقت کا دبدبہ، واک اوٹ، ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی کی نذر کردیاگیا ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ اعلانات کی شکل وصورت میں بلکہ سینہ ٹھونک ٹھونک کر کررہے ہیں کہ ان کا تعلق دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے ہے جہاں آئین کی حرمت ، تقدس اور بالادستی تمام تر ازموں سے مقدم ہے۔ لیکن جب کارکردگی، عوام کے تعلق سے اشوز، انداز فکر اور طرزعمل پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو یہ شدت سے محسوس ہورہا ہے کہ ان دونوں ایوانوں کی نہ صرف مسلسل توہین کی جارہی ہے بلکہ ہر فریق ان ایوانوں کے تقدس کو پامال اور ان کی روح کو چھلنی کرکے انہیں اپنی اپنی ہجومی ہلڑ بازی کے اکھاڈہ میںتبدیل کرنے میں گونا لذت سی محسوس ہورہی ہے۔
یہ عام تاثر ہے ۔ یہ تاثر بھی ہے کہ لوگ اپنے مسائل اور معاملات کا حل تلاش کرنے ، ترقیات کے حوالہ سے ہر پروجیکٹ اور روڈ میپ وضع کرنے، ملکی معیشت کو ہر طلوع سحر کے ساتھ ایک نئی سمت اور جہت عطاکرنے ، قانون اور آئین کی بالادستی کو تمام تر سوچوں اورازموں پر مقدم سمجھنے، آبادی کے ہرطبقے اور فرقے کو بلالحاظ مذہب، رنگ نسل ،ذات پات اور علاقائیت کے خول سے باہر یکسانیت اور مساوات کی بُنیاد پر معاشرے کی نشوونما، اقدار کی آبیاری اور ترقیات میں برابر کا حصہ دار بنانے کی سمت میں ہر منتخب رکن اپنا اپنا کردار اداکرے گا لیکن عوام کی یہ توقعات ہر اجلاس کی صبح سے شام تک کسی نہ کسی وجہ سے خاک نشین ہوکر رہ جاتی ہیں۔
اس صریح ناکامی کی وجہ آخر کیا ہے ۔ حزب اختلاف کی نظرمیں جو اشوز یا معاملات اہمیت رکھتے ہیں اور بحث ومباحثہ اور مشاورت کی بُنیاد پر مثبت فیصلوں اور اقدامات کا تقاضہ رکھتے ہیں حکمرا ن جماعت ان کی اس راہ میں مزاحم ہورہی ہے جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے حکومتی اراکین ملوثین کو اپنا تحفظاتی حصار فراہم کرتی ہے۔ حکمران جماعت کااپوزیشن پر مسلسل الزام ہے کہ وہ ایسے اشوز کو اُٹھارہی ہے جن کی کوئی بُنیاد ہی نہیں اور تنقید برائے تنقید اور مخالفت کے جذبات سے سرشار اپنے تیروں کا رخ ان کی طرف پھیرنے کی مسلسل مشق کررہی ہے۔
جو کچھ بھی ہے ، اب صورتحال اور عوامی سطح پر سوچوں کا محور اس تعلق سے اُبھرتا جارہا ہے کہ دونوں فریق دراصل اپنے اپنے سیاسی ایجنڈا کی روشنی میں بالادستی اور دبدبہ کی جنگ میں اُلجھتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں عوام کے وسیع تر حقوق، مفادات، معاملات اور مسائل بہت بڑی کیجولٹی بنتے جارہے ہیں۔ تین ہفتوں پر محیط سیشن نے ملکی عوام اور ملک کو کیا دیا…؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اعداد وشمارات پر سرسری نظر ڈالی جائے تو کچھ حیران کن نتائج کارکردگی کے حوالہ سے سامنے آجاتے ہیں۔ ۲۰؍ روز ان دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں سے آئین پر مجموعی طور سے ۳۳؍ گھنٹے بحث ہوئی۔ راجیہ سبھا میں ۱۷؍ گھنٹے اور لوک سبھا میں ۱۶؍ گھنٹے تک آئین پر بحث ہوئی۔۲۰؍ ایام میںسے محض ۱۲؍ ایام میں وقفہ سوالات ۱۰؍ منٹ سے تجاوزنہ کرسکا۔ کئی ایک تحریک التواء پیش کئے گئے لیکن کسی ایک بھی تحریک التواء کو قابل غور یا قابل مشاورت نہ سمجھتے ہوئے پہلی ہی نظرمیں مسترد کردیاگیا۔
یہ مایوس کن منظرنامہ پارلیمنٹ کے اندر کا ہے ۔ پارلیمنٹ کے باہر کے مناظر بھی کچھ قابل فخر نہ رہے۔ ایوان کے اندر وزیر داخلہ کی تقریر کے کچھ حصوں باالخصوص بابائے آئین ڈاکٹر امبیڈ کر سے متعلق کچھ کلمات کو اپوزیشن نے امبیڈ کر کی توہین قرار دے کر نہ صرف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے بلکہ وزیر کے مستعفی ہونے کی بھی مانگ کی جس مانگ کے جواب میں متعلقہ وزیر نے اپوزیشن کا نگریس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے کئی استعفوں کے باوجودبھی کانگریس اگلے کئی برسوں تک اقتدار میںنہیں آسکتی ‘‘۔پارلیمنٹ کے احاطے میں ہنگامہ آرائی اور دھکم پیل اور ہلڑ بازی کا ایک نیا اندا زسامنے آیا اور اس معاملہ کو لے کر ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات کرائم برانچ کے سپرد کردی گئی، البتہ دھکم پیل کے دوران ایک رکن کے بارے میں ہسپتال کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ اس کا بلڈ پریشر قابومیں نہیںآرہا ہے چنانچہ اس کو انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں داخل رکھا گیا۔ واقعی حیران کن ہے ۔ دھکم پیل میں بلڈ پریشر کا حملہ ہونا غالباً میڈیکل سائنس کی دُنیا میں ایک نئے چپٹر کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔
اپوزیشن کی طرف سے آئین پر بحث کا مطالبہ تسلیم کرکے حکمران جماعت نے غالباً فراخدلی کا مظاہرہ کیا ۔ دوروز تک بحث ہوتی رہی، اراکین نے اپنے اپنے خیالات کا برملا اظہارکیا، اپنی پسند اور ناپسند کا بھی کھل کر اظہار کیا، وزیراعظم نے بحث کا جواب دینے کیلئے ۱۱۰؍ منٹ تک تقریر کی۔ لیکن سڑک پر اوسط شہری، کھیت کھلیانوں میںدھوپ کی تمازت اور ٹھنڈ کی شدت برداشت کرکے عرق ریزی کرنے والا کسان ؍زمیندار، فیکٹریوں میںکام کرنے والا اوسط کارکن یا زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لاتعداد شہری کئی روز گذرنے کے باوصف بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ فریقین نے جو بحث کی اور تقریر یں کیں اُن کا محاصل کیا رہا ؟
تاریخ کے تناظرمیں ملک کی قیادت کے رول اور کرداروں کی کردارکشی، تقریباً۷۰؍سال کے دوران ہر شعبے کے حوالہ سے غلط پالیسیوں کی ترتیب وتدوین اور طعنہ زنی سے عبارت انداز فکر اور اپروچ ضرور سامنے آیا جو ہر ایک اعتبار سے ملک کی سنجیدہ فکر اور حساس آبادی کیلئے باعث حیرت ہی نہیں بلکہ شرمناک سمجھا جارہا ہے۔ بہرحال فریقین کے درمیان نظریہ بالادستی اور سیاسی دبدبہ کی یہ جنگ کب تک اور کس حد تک جاری رہیگی قطع نظر اس کے عوامی حلقوں میں یہ احساس شدت کے ساتھ جگہ پاتا جارہا ہے کہ بہتر اور موزون تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس فی الحال غیر معینہ مدت تک کیلئے موخر رکھے جائیں، ارکان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کی ادائیگی روک دی جائے، اور مدت مکمل ہونے پر نئی پارلیمان کی تشکیل کو آئندہ کچھ برسوں تک کے لئے موخر کردیاجائے۔
ملکی معاملات کو چلانے کیلئے سرکردہ ٹیکنوکریٹوں، بااثر اور ممتاز سماجی شخصیتوں، ماہرین قانون وآئین و معاشیات اور دفاعی معاملات کی بہتر علمیت رکھنے والوں پر مشتمل ایک قومی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے۔ فریقین کی ہٹ دھرمی ، مائے وے اور ہائی وے ، ضد اورنظریہ بالادستی کاخاتمہ انہی چند اقدامات کے طفیل ممکن ہوسکتا ہے اور کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ کیونکہ سیاستدانوں نے آبادی کے درمیان جنونیت کا زہر بھی پھیلایا اور فرقہ پرستی کی بھی مختلف طریقوں سے سرپرستی کی جارہی ہے۔