بدھ, جولائی 9, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کشمیر کی دلی سے دوری … ذمہ دار کون؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-12-15
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

یہی ماہ دسمبر تھا، پورے ۶۱؍ سال قبل ۱۹۶۳ء کشمیر اور کشمیری عوام کو اپنی عصری تاریخ کے دوسرے سانحہ سے دو چار کر دیا گیا ۔معلوم نہیں مستقبل کا وہ کون مورخ ہوگا جو۱۹۵۲ء سے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء تک کے تکلیف دہ سانحات ،روح فرسا اور عذاب سے عبارت تاریخ کے ان پنوں کی گہرائیوں اور بحیثیت مجموعی قوم پر مرتب ان کے منفی و مثبت اثرات، سوچوں اور طرز عمل کی دھارائوں کی سمتوں کا ان کے اصل سیاق و سباق کی روشنی میں تجزیہ مرتب کرکے پیش کرے گا۔
پہلا جھٹکا سیاسی اعتبار سے شیخ عبداللہ کی اقتدار سے برطرفی ،گرفتاری اور پھر بخشی غلام محمدکی قیادت میں کشمیر میں کھڑپنچ اور غنڈہ راج کا قیام اور دہلی کی سرپرستی۔ دہلی کا یہ اقدام درحقیقت کشمیر میں آئین کے حوالے سے ضمانتوں اور تحفظات کے ساتھ ساتھ جمہوری حقوق کی پامالی کاسنگ اول تصور کیا جا رہا ہے۔ دہلی نے کانگریس کی قیادت میں جس سیاسی دہشت گردی کا راستہ اختیار کر کے بخشی اور اس کے لٹیرا نہ اورغنڈہ گر د ٹولے کو کشمیر پر مسلط کیا اُس سے پھر دو قدم آگے بڑھ کر کامراج پلان کے تحت اُسی بخشی کو اقتدار سے بے دخل کر کے ذلیل اور رسوا کر دیا۔
اس مخصوص دور نے کشمیر میںکن سیاہ کاریوں اور منفیات کو جنم دیا آنے والے برسوں میں وہ اپنے بال و پر پھیلاتے گئے اور انہی کے وطن سے بعد کے آنے والے برسوں کے دوران وہ ساری خرابیاں جنم لیتی رہی اور سیاسی اُفق کو گہن زدہ بناتی رہی جس سے آج کی تاریخ میں بھی پیچھا نہیں چھوٹ پارہا ہے ۔کشمیر میں علیحدگی پسندی اور عسکرت پسندی کی جو کچھ بھی وجوہات اور معاملات بعد کے برسوں کے دوران پیش آمدہ واقعات اور معاملات سے منسوب کی جاتی رہی ہے لیکن اصل میں اس کے بیج بخشی دور اور اس کی ماتحت پرورش پا رہی اُس دور کی پولیس بونے کی ذمہ دار تصور کی جا رہی ہے۔
موئے مقدس ﷺ… اصل چور کون؟
بہرحال یہ علیحدہ بحث طلب اشو ہے۔ لیکن دسمبر۱۹۶۳ء میں آثار شریف حضرتبل سے موئے مقدس کی پراسرار چوری (گمشدگی) نے جہاں اوسط کشمیری کے جذبات، احساسات اور روح اور نفیسات کو چھلنی کرکے رکھدیا وہیں یہ وہ واقعہ ہے جس نے دہلی پر سے کشمیر کے اعتماد اور بھروسہ میںدوسری بڑی گہری شگاف ڈالدی۔ ۶۱؍ برس بیت گئے اور موئے مقدس کا چور ابھی پردوں میں ہے۔ دُنیا کی کوئی بھی مہذب اور شائستہ قوم وملک اس بات کا گمان بھی نہیں کرسکتا ہے کہ چور اتنی بڑی واردات کامرتکب بھی ہوجائے، پکڑا بھی جائے لیکن سزا سے بھی بچ جائے۔
اُس دور کے آئی بی ڈائریکٹر بی این ملک نے تو اپنی تصنیف میںدعویٰ کیا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ چور ی کس نے کی، کیسے موئے مقدس برآمد کیاگیا لیکن یہ راز میرے سینے میںمیرے مرنے کے ساتھ ہی دفن ہوگا‘‘۔ کیا چور اتنا بڑا بااثر کوئی شخص تھا کہ اس کو پکڑا بھی گیا، مال مسروقہ بھی برآمد کیاگیا لیکن سزا سے مستثنیٰ بھی قرار دیاگیا۔ پھر اس مخصوص طرزعمل میں کشمیر یہی سوال کرتا بھی رہا ، یہی تاثر بھی مستحکم جڑیں پکرتا بھی رہا اور پھر وقت گذرتے یقین بھی ہوتاگیا کہ کیا چوری کی اُس مخصوص واردات میں خود دہلی ملوث تھی؟ اگر نہیں تو پھر کیا کشمیرمیںدہلی کاکوئی سیاسی یا غیر سیاسی مہرہ یا آلہ کار ملوث تھا کہ دہلی نے اُسے گرفت میں لانے اور موئے مقدس اس کی تحویل سے برآمد کرنے کے باوجود اس سے جڑے سارے معاملات کو راز میںرکھا اور حکومت نے ان رازوں کو ’کلاسفائیڈ‘ درجہ بھی دیدیا؟
موئے مقدس کی پراسرار چوری اوربرآمدگی کی ایک علیحدہ کہانی ہے۔ لیکن ایک تنازعہ جو بے حد حساس اور سنگین نوعیت جس کا تعلق جذبات اور عقیدہ سے تھا برآمد شدہ موئے مقدس ﷺ کی اصل شناخت کا مطالبے کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن حکومت نے اس مطالبے کو ماننے سے اِنکار کیا۔ البتہ اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ موئے مقدس ﷺکی شناخت وقت کے ایک بلند مرتبت روحانی پیشوا اور بزرگ ہستی سید میرک شاہ صاحب کاشانی سے کرائی جائے۔ اس کے بارے میں ایک اور کنٹروورسی اُس وقت سامنے آئی جب سرکاری طور پر دعویٰ کیاگیا کہ موئے مقدسﷺ کی شناخت ہوئی اور کاشانی صاحب نے مثبت میں سر ہلا کر اس کی اصل کی تصدیق کی لیکن کچھ دعویدار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کاشانی صاحب (مرحوم) نے زبان سے کچھ بھی نہیںکہا صرف سر ہلایا جبکہ نشست میں موجود کچھ حضرات نے مبارک مبارک کا شور وشر بلند کیا۔ یہ لوگ کون تھے، اس جتھے کی قیادت کون کررہاتھا، مولانا محمدسعید مسعودی کی طرف براہ راست انگلی اُٹھی بھی اور بعد کے آنے والے برسوں میں اُٹھائی بھی جاتی رہی جبکہ مرحوم مولانا سعد کو اس کے اپنے ہی کچھ ساتھی کشمیر میںدہلی کا آلہ کاراور مہرہ قرار دیتے رہے اورانہی سے منسوب یہ بھی ہے کہ انہوںنے اُس وقت کی ایکشن کمیٹی کو موئے مقدسﷺ کے ملزم یا ملزمان کو پیش کرنے کا نعرہ یا مطالبہ کرنے سے منع کرتے ہوئے اُسے شیخ محمدعبداللہ کی جیل سے رہائی کے مطالبے کی جانب موڈ کر دہلی کے سیاسی مگر خالی اور خستہ پڑے خاکوں میں رنگ بھرکے ان میں ایک نئی روح پھونکی۔
مولانا مسعودی …ٹٹی کی آڑ میں شکار
ا س حوالہ سے مجھے کئی سال قبل کشمیری پنڈت سماج کے ایک قد آور سیاسی اورسماجی شخصیت پنڈت کشپ بندھو سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، باتوں باتوں میں ۱۹۵۲ء موئے مقدس ﷺ کی چوری اور کئی ایک دوسرے معاملات کے حوالہ سے مولوی محمد سعید مسعودی کے رول اور کردار کا تذکرہ بھی آیا، میرے کئی طرح کے استفسارات کے جواب میں پنڈت جی نے مختصر سا یہ جواب دیا کہ مولانا محمد سعید مسعودی کی فطرت یہ تھی کہ وہ ’’ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلنے میںبڑی مہارت رکھتے تھے اور پھر اشارہ کیا کہ اس کے مخصوص رول پر اور کوئی بات نہیں ہوگی۔ البتہ اشارے میں پنڈت کشپ بندھو جی یہ بھی بتا گئے کہ ۱۹۵۲ء کے واقعات میں بھی ان کا ایک کردار تھا۔
بہرحال موئے مقدسﷺ کا ملزم تو آج بھی روپوش ہے لیکن چوری اور برآمدگی کے کچھ وقت کے بعد بخشی دور کے ان کے ایک بہت ہی قریبی ساتھی اور معتمد خاص عبدالرحمان غازی نے اعلان کیا کہ وہ مہاراج گنج کے کسی علاقے میں عوامی جلسہ میں موئے مقدس کے اصلی چور کی نشاندہی کرے گا اور جب تقریر کے دوران مقرر نے موئے مقدسﷺ کا نام ہی زبان پر لیا تھا تواُس پر کانگڑیوںکی برسات ہوئی، وہ کون تھے جنہوںنے کانگڑیوں کی برسات کرکے مقرر کوچور کا نام ظاہر کرنے سے روک لیا؟ کیا یہ سازش کا دوسر باب نہیں تھا؟
لیکن اُسی دور میں یہ بات ہوائوں میںگردش کرتی رہی کہ بخشی غلام محمد نے موئے مقدسﷺ چوری کیا، تاکہ بستر پر اپنی ماں کی دیدار کی خواہش پوری کرسکے جبکہ دوسری تھیوری یہ اڑائی گئی کہ بخشی کو چونکہ اقتدار سے بے عزت کرکے بے دخل کردیاگیا تھا تو اُس نے دہلی سے بدلہ لینے کی غرض سے موئے مقدسﷺ کی چوری کا منصوبہ مرتب بھی کیا اور اپنے کچھ حواریوں سے مل کر اس کو عملی جامہ بھی پہنایا۔
موئے مقد س کی چوری کے واقعہ کے حوالہ سے کشمیر کا طول وارض فکر وعمل کے اعتبا رسے ایک سیسہ پہلائی ہوئی دیوار کی مانند کشمیر کے چپے چپے پر نظرآتا رہا۔ اتحاد اتفاق، برادارانہ جذبات، ایک دوسرے کے تئیںمحبت اور یگانگت سے عبارت تعلق، ہر سڑک ، ہر گلی، ہر کوچہ اور ہر نکڑ پر کھانے پینے کے انتظامات تو تھے ہی لیکن بازیابی کی اُس تحریک میںکشمیری پنڈت سماج نے بھی اپنا ایک مخصوص کرداراداکیا۔ کسی ایک بھی جگہ سے ذرہ بھر بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا حالانکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں تشدد آمیز واقعات رونما ہوئے۔
موئے مقدسﷺ کی باز یابی کے ہی حوالہ سے ایک اور دعویٰ یہ بھی سامنے آتارہا کہ حکومت نے آگرہ سے تعلق رکھنے والے کچھ کاریگروں جو چاندی کے کاروبار سے وابستہ تھے سے موئے مقدسﷺ کی بکس سے مشابہت کئی بکس تیار کروالے اور پھر …… لیکن اسی دوران ریڈیو پاکستان سے اپنے ایک معمول کی ماہانہ ریڈیائی تقریر کے دوران اُس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے اعلان کیا کہ ’’خدا کرے کہ یہ اصلی موئے مقدس ہو……‘‘
ان مخصوص معاملات کے باوجود کشمیر کی لاکھوں آبادی کی موئے مقدس کے ساتھ جذباتی، روحانی، نفسیاتی، عصابی، عقیدتی وابستگی برابر قائم ہے۔ لیکن کشمیر کی تین نسلوں کے گذرنے کے باوجود یہ احساس بدستور بے چین اور جذبات کو برابر مجروح کررہا ہے کہ دہلی نے چور کو اپنی پناہ میںرکھا، موئے مقدسﷺ جہاں کہیں اور جس کسی کے ہاں سے برآمد ہوا اُس کو راز میں رکھا، یہ راستہ اختیار کرکے درحقیقت دہلی، جہاں اُس دورمیں کانگریس کی حکومت تھی اور کانگریس کی پارٹی اور حکومتی قیادت نے کشمیرکی سرزمین ، اس سے وابستہ سیاسی اور حساس نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے اپنے مفادات اور اندھی مصلحتوں کی تکمیل کیلئے لیبارٹری(تجربہ گاہ) بنایا تھا، کشمیرمیںکشمیری عوام کے دلوں میںاپنی تاریخی عہد شکنیوں کے بیج بوکر حقیقی معنوں میںکشمیریوں کو دہلی پر اپنا اعتماد اور بھروسہ کو متزلزل کرنے کی تحریک وترغیب دی بلکہ سرحد کے اُس پار سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹروں کو پلیٹ پر سجا کر کچھ ایسا کشمیر پیش کیا جس کا خمیازہ کشمیر اب ایک مدت سے بھگت بھی رہا ہے اور سہہ بھی رہا ہے۔
 اندھی مصلحتوں کی تابع کشمیر پالیسی
کشمیرکے حالات واقعات پر ماضی قریب کے تعلق سے نگاہ دوڑائی جاتی ہے اور کشمیرمیں عدم سیاسی اور معاشرتی استحکام کی وجوہات کو کھنگالنے کی تھوڑی سی کوشش کی جاتی ہے تو ان سارے حوالوں کا گہرائی سے تجزیہ کرنے پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دہلی ہر واقعہ اور معاملہ کی براہ راست ذمہ دار رہی ہے۔بخشی، صادق ،میر قاسم کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی، ایک دوسرے کی حریف ارکان اسمبلی کی چور دروازوں کے پیچھے سے سرپرستی، سڑک پر عدم استحکام برپا کرنے یا امن عامہ کو بگاڑنے کی نیت سے کبھی ’’ بُک آف نالیج‘‘ ایسے واقعات کی اختراع، وقت کی برسراقتدار حکومت کو پریشانی سے دوچار کرنے کیلئے اپنی ایک مخصوص ایجنسی کی وساطت سے سنگ باز بریگیڈ کو وجود بخشنے ایسے معاملات تاریخ کشمیر کا حصہ تو ہیں لیکن ان واقعات کو دہلی اپنی مخصوص اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظرہوا بھی دیتی رہی اور عملی جامہ بھی پہناتی رہی۔
کئی ایسے معاملات کو زمین پر عملی جامہ پہنانے کیلئے خاکی وردی میںملبوس کئی ایک آفیسران کی خدمات بھی حاصل کی جاتی رہی جونہ صرف محض سیاسی نظریات یا ذاتی عناد کی بنا پر شہریوں کو اپنے عذاب وعتاب کا نشانہ بناتے رہے لیکن ظلم وبربریت کے ان زینوں کو استعمال کرکے تیز رفتار ی کے ساتھ ترقیاتی سیڑھیاں بھی چڑھتے رہے۔
الحاق سے لے کر پہلے وزیراعظم کی اقتدار سے برطرفی تک کشمیر سیاسی بلکہ ہر پہلو سے خاموش اور مطمئن تھا۔ لیکن کان کے کچے ملک کے پہلے وزیراعظم نے اپنے گرد وپیش کچھ حواریوں کے بہکائوے میںآکر اور ان کے سازشی جھوٹ کو پرکھے بغیر سچ سمجھ کر تختہ پلٹ دیا اور یوں کشمیرمیں عدم استحکام کی بُنیاد ڈالی اور کشمیرکو عدم سیاسی استحکام کی ایک ایسی بھٹی کی نذر کردیا جس بھٹی سے بلند ہوتے رہے شعلوں کی تپش ابھی بھی کشمیرکا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔
سازش گھڑی گئی ، کئی سال تک مقدمہ چلایاگیا، گواہاں اختراع کئے گئے، بدقسمتی سے کشمیر اردو پرنٹ میڈیا سے وابستہ ایک شخصیت بھی ان گواہوں کی لائن میں گواہی دینے کا منتظر تھا لیکن ساز ش کیس واپس لینے کے نتیجہ میں وہ اپنی گواہی نہ دے سکے۔
۱۹۴۷ء کے کچھ دیر بعد لال چوک کے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران عوام سے بہت سارے وعدے کئے گئے، آئینی ضمانتوں کے ہمالیہ کھڑے کئے گئے لیکن چھٹی دہائی کی آمد آمد کے مختصر سے عرصہ کے دوران ان سارے وعدوں، آئینی ضمانتوں اور عہد وپیمان پر منون ٹن وزنی مٹی ڈالدی گئی۔ اندھی سیاسی مصلحتوں کے راستے اختیار کرکے میڈ ان دہلی (کٹ پتلی) حکومتیں کشمیرپر مسلط کی جاتی رہی جن کا کام صرف لوٹ کھسوٹ، استحصال ، کورپشن اور سیاسی عناد کی آڑ میں لوگوںپر جبروقہر تھا۔ اس مدت کے دوران صرف وزیراعظم مرارجی ڈیسائی واحد سیاسی شخصیت ہوگذرے ہیں جنہوںنے کشمیریوں سے چھینے گئے جمہوری حقوق بحال کئے اور اس طرح پہلی بار کشمیر میںمنصفانہ انتخابات کی دیوی کے درشن لوگوںنے کئے۔لیکن اگلے صرف دس سال بعد پھر وہی کھیل کھیلا گیا جسے دہلی نے کانگریس کی قیادت میں کشمیر کا مقدر لکھ کر تاریخ کا حصہ بنایا تھا۔
کچھ ہم سے کہا ہوتا ، کچھ ہم سے سنا ہوتا
۴۔ کشمیرکی اس دلی سے دوری پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک وقت کے وزیراعظم اندر کمار گجرال نے ۹۰ء کی شورش کے حوالہ سے دہلی کے پرگتی میدان میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گلہ شکوہ کے لہجہ میںکہا تھا کہ ’’ کچھ ہم سے کہا ہوتا اور کچھ ہم سے سناہوتا‘‘ لیکن گجرال صاحب مرحوم کانگریس کی کشمیرکی آئیڈیولاجی سے غالباً زیادہ واقفیت نہیںرکھتے تھے اور کشمیرکے حوالہ سے اپنے من کا درد ہی زبان پر لانے تک محدود رہے۔ ان کی توجہ ایک اور وزیراعظم کی کشمیرکے تعلق سے ’آسمان کی حدتک‘ کا اعلان کے حسرت ناک حشر کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن اس وزیراعظم کا یہ اعلان زمین کی ایک انچ کی اوپری سطح سے اوپر کی طرف پرواز نہ کرسکا۔
کشمیر سے باہر رائے عامہ سے وابستہ کچھ حلقے عموماً کشمیریوں پر مختلف اقسام کی لیبلیں چسپاں کرکے انہیں قوم پرست تصور نہیں کرتی بلکہ بہت حد تک کشمیریوں سے بدظن بھی ہیں۔ لیکن ان حلقوں نے اپنی سوچ کو تھوڑی سی وسعت دینے کی زحمت گوارانہیں کی، کرتے اور ۴۷ء کے بعد کے حالات واقعات پر گہری نگاہ ڈالی ہوتی توانہیں وہ سارا کچھ نظرآتا جو کشمیر سے ہوا، کیا گیا اور وہ سارے کردار اپنے اپنے کریہہ شکل وصورت میں ان کی آنکھوںکے سامنے بے نقاب ہوتے ۔ لیکن جب آنکھوں پر پٹی بندی ہی رہے تو کچھ نظرآنے کی توقع حسرت ہی بن جاتی ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

راہل گاندھی محض ایک بلبلہ ؟

Next Post

2024 میں پاکستان سب سے زیادہ ٹی20 انٹرنیشنل میچز ہارنے والی ٹیم بن گئی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

2025-07-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-08
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-06
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

2025-07-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

امر ناتھ یاترا :سرکاری انتظامات اور مقامی مسلمانوں کے تعاون کا امتزاج

2025-07-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پی اے سی: کیا کشمیر میں اب بھی جذباتی نعروں کی گنجائش ہے ؟

2025-07-02
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-02
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-01
Next Post
سہ فریقی سیریز: پاکستان اپنا پہلا میچ 7 اکتوبر کو کھیلے گا

2024 میں پاکستان سب سے زیادہ ٹی20 انٹرنیشنل میچز ہارنے والی ٹیم بن گئی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.