اتوار, مئی 11, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

راہل کوگود میں بٹھا کر این سی

کشمیر کو قربانی کا بکرا کیوں بنارہی ہے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-12-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

ایسا لگتا ہے کہ ملکی سطح پر اپوزیشن کا اتحاد انڈیا بلاک آہستہ آہستہ کمزور بھی ہوتا جا رہا ہے اور اس کا شیرازہ بھی بکھرتا جا رہا ہے ۔کچھ اہم ملکی معاملات کے حوالے سے ممتا بینرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس اور اکھلیش یادو کی قیادت میں سماج وادی پارٹی اتحاد سے دور ہوتی جا رہی ہے اور کئی ایک معاملات کے حوالے سے اپنے منشور، اپنے نظریات اور اہداف کے تعلق سے اپنے اپنے انداز کی سیاست کر رہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں حالیہ چند ایام میں کچھ ایک اہم معاملات بشمول اڈانی کی مبینہ رشوت اور بدعنوانیوں کے تعلق سے اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں بحث کرنے کی مانگ اور انکار ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کے فیصلے میں ان دونوں پارٹیوں سے وابستہ ممبران نے احتجاج یا واک آؤٹ میں حصہ نہیں لیا بلکہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے اور جن اشوز پر ایوان میں بات ہوتی رہی ان میں اپنا حصہ ڈال دیا۔
اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پرینکا گاندھی کی حالیہ الیکشن میں بطور اُمیدوار کے مہم چلانے کے دوران بھی اپوزیشن بلاک سے وابستہ کسی لیڈر یا رکن نے حصہ نہیں لیا محسوس کیا گیا جبکہ جموںو کشمیر میں حالیہ پار لیمانی الیکشن کے بعد اسمبلی الیکشن کے دوران بھی نیشنل کانفرنس اور کانگریس جو انڈیا بلاک کے رکن ہیںکے اُمیدواروں کے حق میں کسی الیکشن ریلی میں حصہ نہیں لیا۔ کیجریوال کی قیادت میں عاپ نامی پارٹی نے بھی دہلی اسمبلی الیکشن سے قبل ہی کانگریس کے ساتھ کسی بھی انتخابی گٹھ جوڑ سے خود کو الگ تھلگ کر دیا ہے اور اکیلے الیکشن میدان میں کودنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اِدھر جموں و کشمیر میں اگرچہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس آپسی گٹھ جوڈ برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کو آپسی اشتراک عمل کا یقین دلا رہے ہیں لیکن کچھ اہم حساس نوعیت کے معاملات پر دونوں کی راہیں جدا جدا ہیں، موقف جُدا جدا ہیںاور راستے بھی الگ الگ ہیں۔ کانگریس کی مقامی اور ملکی قیادت حالیہ چند مہینوں باالخصوص الیکشن کے بعد سے اب تک کئی بار اپنے اس موقع کو واضح کر چکی ہے کہ ان کا دفعہ ۳۷۰؍کی واپسی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں خاص کر جب اس اشو کے تعلق سے سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ،دو ٹوک اور حتمی ہے البتہ کانگریس ریاسی درجہ کی بحالی کے اپنے موقف پر قائم ہے ۔نیشنل کانفرنس کی قیادت سے جب کانگریس کے اس موقف پر سوال کیا جاتا رہا تو یہی جواب دیا جاتا رہا کہ ہمارا چنائو منشور واضح ہے ہم اُس منشور کے پابند ہیں جبکہ کانگریس کا بھی اپنا ایک چنائو منشور ہے۔
کشمیر میں نیشنل کانفرنس قیادت کی جانب سے اس طرح کی وضاحتیں ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر ان کی ایک اہم اتحادی پارٹی ان کے سیاسی روڈمیپ، نظریہ اور موقف سے متفق نہیں اور ملکی سطح کی مجبوریوں باالخصوص حکمران جماعت اور حکومت کے مسلسل دبائوکہ وہ ان مخصوص اشوز کے تعلق سے اپنا موقف واضح کریں کانگریس دامن بچا رہی ہے تو اُس صورت میں اس اتحاد اور اشتراک کی اہمیت کیا ہے اور عوام کیلئے بحیثیت مجموعی اس کی سیاسی اشوز اور مفادات کے تحفظ کے تعلق سے افادیت ہی کیا ہے؟ کانگریس کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے اس اتحاد یا آپسی گٹھ بندھن سے عوام کو کون سا فائدہ پہنچ سکتا ہے یا حاصل ہونے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے اس گٹھ جوڑ سے نیشنل کانفرنس کی قیادت کے اپنے کچھ نظریوں کو تحفظ حاصل ہو رہا ہو لیکن مجموعی طور سے اور زمینی سطح پر ۷۵؍ سالہ تاریخ اورکردار کے تناظرمیں احاطہ کیا جائے تو کشمیر کو کانگریس کے ہاتھوں دھوکہ کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ پہلے وزیراعظم آنجہانی جواہر لعل نہرو سے لے کر مرکزی وزیرداخلہ گلزاری لال نند ہ تک اور بعد میں ان کے جانشینوں نے کسی بھی مرحلہ پر کشمیر سے وفانہ کی بلکہ ایک مخصوص کشمیر پالیسی اور نظریہ کو اپنا کر نہ صرف کشمیری عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے محروم رکھا بلکہ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل سے عبارت پر پالیسیوں کو وضع اور اختیار کرکے اور ریمورٹ کنٹرول سے کشمیر پر حکمرانی کی۔
نیشنل کانفرنس کی قیادت کو اس حوالہ سے الف سے ے تک باریک سے باریک پہلوئوں اور معاملات کی جانکاری حاصل ہے لیکن کانگریس کا دم چھلہ بنے رہنا اس کی اپنی پسند ہے ۔ بلکہ عام اور حساس ہر طرح کے معاملات پر معاونتی کردار اداکرتی رہی۔ یہ تاریخ کا ایسا باب ہے جس کی حیثیت ناقابل تردید ہے قطع نظر اس کے کہ کانگریس کی ملکی یا مقامی قیادت کوئی اور ہی وضاحت پیش کرتی رہے۔
جس ۳۷۰؍ کو اشو بنا کر عوام کو فی الوقت لبھایا اور رجھایا جارہا ہے اُسی دفعہ کی جب قدم قدم پر عصمت دری ہوتی رہی تو نیشنل کانفرنس کی قیادت بحیثیت حکمران موجود تھی۔ مرحوم شیخ محمدعبداللہ نے اپنے قریبی نائب وزیراعلیٰ دیوی داس ٹھاکر جو اپنے وقت کے ماہر قانون تھے اکارڈ کی روشنی میں مرکزی قوانین جو جموں وکشمیر پر نافذ کئے گئے تھے کا از سرنو جائزہ لینے کیلئے کمیٹی کی قیادت سونپی تو اُنہوںنے بھی اپنی رپورٹ میں اس امر کو تسلیم کرلیا کہ پانی دریائوں میںبہت بہہ چکا ہے لہٰذا واپسی ممکن نہیں۔ کانگریس شریک اقتدار تھی تو کابینہ سب کمیٹی کے ممبران کی حیثیت میں بھی کانگریس کے ارکان کمیٹی نے خودمختاری کے بشمول دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے قدم قدم پر یہ موقف اپنایا کہ اکارڈ کے ساتھ ہی یہ سارے اشوز حتمی طور سے حل ہوچکے ہیں لہٰذا نظرثانی اور مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں۔
یہ تاریخی واقعات ہیں۔ اس تاریخی تناظر میںموجود حالات پر نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو کانگریس کے ساتھ اتحاد کو بنائے رکھنے کا کوئی افادی پہلو اور جواز نہیں۔ کانگریس کی قیادت باالخصوص راہل گاندھی کو گود میں بٹھائے رکھنے اور کندھوں پر سوار رکھنے سے کشمیر کو کسی بھی شعبے کے حوالہ سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے اور نہ مستقبل قریب میںہونے کی اُمید ہے۔ البتہ راہل گاندھی کو گود میں بٹھائے رکھنے سے کشمیر سیاسی، انتظامی اور اقتصادی شعبوں میں مسلسل نقصان اُٹھارہا ہے۔ اس اتحاد کا خمیازہ کشمیر کیوں بھگتا رہے گا اور آخر کب تک؟
پھر بھی اگر نیشنل کانفرنس کی قیادت راہل گاندھی کیلئے کشمیر اور کشمیری عوام کے مفادات اور حقوق کو قربانی کی بھینٹ چڑھانے کا راستہ مسلسل طور سے اختیار کرنے پر بضد ہے تو یہ اوسط کشمیری کیلئے نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ اب ناقابل برداشت بھی ہے۔ سیاستدان بحیثیت حکمران بھی جبکہ ان میں سے کچھ نے کشمیرکے مفادات، جمہوری حقوق اور منفرد تشخص کے حوالہ سے کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ سودا گرانہ راستوں کو اختیار کرکے صرف اور صرف اپنے لئے حصول اقتدار اورپھر تحفظ اقتدار کو ہی ترجیح دیتے رہے۔ یہ سب سے بڑا المیہ اور کشمیر کی بڑی بدقسمتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

عمرعبداللہ کی خاموشی ؟

Next Post

پی سی بی کا ورلڈ کپ کی فاتح بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ایک کروڑ روپے انعام

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
شدید تنقید کا سامنا کرنے کے بعد آخر کار پاکستان کرکٹ بورڈ کو غلطی کا احساس

پی سی بی کا ورلڈ کپ کی فاتح بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ایک کروڑ روپے انعام

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.