آئین اور جمہوریت نے لوگوں کو بیلٹ بکس کی وساطت سے اپنے نمائندوں کا ا نتخاب عمل میں لاکر ریاستوں کی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کی آوازبن کر انہیں درپیش معاملات کا حل تلاش کرنے، ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے، اوسط شہری کو خوشحال اور فارغ البال بنانے کی سمت میں رائیں اور وسائل تلاش کرنے، بچوں کی تعلیم، صحت اور نشوونما کو فوقیت دینے، روزمرہ کے معاملات پر سنجیدہ توجہ مرکوز کرکے گھروں کو سکون فراہم کرنے کیلئے روانہ کرنے کا حق اور اختیار تفویض کیا لیکن وقت گذرتے اب یہ ایوان سیاسی اکھاڈوں میں تبدیل کئے جارہے ہیں، ہنگامہ آرائی، شوروغل ، دھینگا مشتی، دھکم پیل ، طعنہ زنی، کردار کشی اور ہر قسم کی لن ترانیوں کا اب مشاہدہ روز کا معمول بن چکا ہے۔
اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے یہ ابھرتے مناظر عوام کیلئے بحیثیت مجموعی مایوس کن اور باعث تشویش ہے بلکہ سنجیدہ اور حساس رائے دہندگان اپنے منتخبہ نمائندوں کے اس طرزعمل اور اپروچ کو اپنی اور اپنے حق رائے دہی کی بدترین توہین تصور کررہے ہیں۔ انہیں یہ تشویش بھی لاحق ہورہی ہے کہ پارٹیوں کے سیاستدان اپنے سیاسی مقاصد، عزائم اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ایوانوں کو دانستہ طور سے استعمال کررہے ہیں، معمولی نوعیت کے معاملات پر پوائنٹ آف آرڈر کا استعمال، کورپشن، بدعنوان طرز عمل، اداروں میں اعلیٰ سطح کی سیاسی اور انتظامی مداخلت ، زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ برسرروزگار اور بے روزگار افراد کو درپیش معاملات وغیرہ کے تعلق سے بحث کے مطالبات اور ان مطالبات کو اکثریت کے ہجومی شور وغل اور دبدبہ کا سہارا لے کر دبانے ، ردعمل میںایوانوں سے واک اوٹ کرنے یا مارشلوں کی طاقت کا استعمال کرکے ایوان سے باہر کا دروازہ دکھانے کا بڑھتا رجحان اور طریقہ کار آئین کی ہی پامالی نہیں بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ جمہوریت اور جمہوری مزاج کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔
اپوزیشن کو یہ بھرم ہے کہ وہ مدعے اُٹھاکر اور شوروغل کا راستہ اختیار کرکے حکمران جماعت کے ممبران پر بالادستی حاصل کررہے ہیں اور یہ طریقہ کار یا راستہ اختیار کرکے اپنے ووٹران کو یہ پیغام بھی پہنچا رہے ہیں کہ وہ ان کی آواز اُٹھارہے ہیںلیکن ہجومی شورغل کا طوفان برپاکرکے ان کی آواز کو دبایا اور کچلا جارہا ہے۔حکمران جماعت کے ممبران کو یہ بھرم ہے کہ وہ رکاوٹیں کھڑ ی کرکے اورشوروغل کا راستہ اختیار کرکے اپوزیشن کے عزائم اور سیاسی عزائم و مقاصد کو شکست فاش سے دور چار کرکے موقعہ پر ہی ناکام بنار رہے ہیں۔
دونوں کا یہ طرزعمل سیاسی جاہلیت، منافقت اور بہرو پیئے سے عبارت ہے، عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی اس دوطرفہ ہنگامہ آرائی سے سٹیٹ کو کچھ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ فریقین کی صریح غنڈہ گردی ، ہلڑ بازی اور چھچھورا پن ہے جس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ اور سنتے کانوں سے سن سن کر لوگ اس سیاسی نظام اور ڈھکوسلو جمہوری طرزعمل سے عاجز آرہے ہیں ، وہ کب تک صبر وتحمل سے کام لیتے رہیں گے ، فریقین کی اس ہنگامہ آرائی او رہلڑ بازی سے ان کا کون سا مسئلہ حل ہورہا ہے یا آنے والے ایام میں ان کے حل ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے ، اس کے آگے سوالیہ لگ چکا ہے۔
اڈانی، امبانی اور ان کی قماش کے دوسرے لوگوں پر عموماً الزام عائد کیاجارہاہے کہ وہ ملک اور اس کے وسائل کومبینہ طور سے لوٹ رہے ہیں اور عوام کی روزمرہ ضروریات زندگی کے حوالوں سے معاملات کی وساطت سے ان کا ناجائز استحصال کررہے ہیں۔ اپوزیشن اس حوالہ سے منظرعام پر آتی رہی رپورٹوں کا معاملہ ایوان میںاُٹھاکر بحث کی طالب ہے مگر حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان اپوزیشن کی کوشش کی راہ میں حائل ہوکر دبانے اور مخالفت کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔ اپوزیشن کیوں اس نوعیت کے معاملات پر ایوان میںبحث کا مطالبہ کرتی رہتی ہے اور حکومت کیوں حائل ہوکر راستہ روکتی رہتی ہے، کیا یہ مفادات کی جنگ ہے یا مفادات کا ٹکرائو، الیکٹورل بانڈز کی وساطت سے کروڑوں کی سرمایہ کاری، ٹھکیوں کی الاٹمنٹ کیلئے کروڑوں کی رشوت کی ادائیگی اور وصولی یہ سارے معاملات اب پوشیدہ تونہیں رہے لیکن عوامی حلقے اس پر انگشت بدندان ہیںکہ کیوں ان عیاں اور منظرعام پر آتے رہے معاملات کے دفاع میں حکومت پیش پیش رہتی ہے اور اپوزیشن کیوں بار بار معاملات اُٹھاکر آگ کے ان شعلوں کو بھڑکاتی رہتی ہے۔
بڑاسوال یہ ہے کہ آخر لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال اور اپے نمائندوں پر بھروسہ کرکے اور منتخب کرکے اسی طرز کی ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی کا قدم قدم پر ننگا ناچ اور مظاہرہ کرنے کیلئے منتخب کیا ہے یا انہیں درپیش سنگین نوعیت کے مسائل اور ملک کو بحیثیت مجموعی درپیش گھریلو اور خارجی معاملات پر غوروخوض کرنے اور صحیح سمت میں پیش قدمی کیسے یقینی بنائی جاسکے کی سمت میں روڈ میپ وضع کرنے کیلئے ، ایسامحسوس ہورہا ہے کہ ہنگامہ آرائی اور دبدبہ بنائے رکھنے کی ذہنیت کے حامل نمائندوں کو ایوان میں بھیج کر دراصل انہیں منتخب کرنے والے بھی غالباً اب اسی سوچ اور نظریہ کے خوگر بنتے جارہے ہیں۔
اس حوالہ سے دیکھا جائے تو ملک میںعوامی نمائندگان سے متعلق جو قوانین نافذ اور موجود ہیں اورجنہیں اب مقدس گائے کا درجہ بھی عطاکردیاگیا ہے کے اندر رائے دہندگان کو یہ اختیار اور حق حاصل ہوتا کہ وہ ہنگامہ پرست طرزعمل اور ذہنیت رکھنے والے نمائندے کو واپس بلاسکتے ہیں تو ایوان پر سکون نظرآتا ہے اور ہر رکن اس احساس اور بوجھ سے دب کر اپنے فرائض بہ احسن طریقے سے اداکرنے پر زیادہ توجہ دیتا، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ منتخب اراکین کو یہ لائسنس حاصل ہے کہ وہ چونکہ ۵؍سال کے لئے منتخب ہوچکا ہے لہٰذا الٹے قدموں کی کوئی بھی گنتی اُسے زیر نہیں کرسکتی۔
پارلیمنٹ کا اجلاس گذشتہ روز شروع ہوا، لیکن ہر روز کسی نہ کسی بہانے یا معاملہ کو لے کر التواء کی نذر ہوتارہا، پارلیمنٹ کی ایک دن کی کارروائی پر کتنے مصارف خزانہ کو برداشت کرنا پڑرہے ہیں اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں اور نہ ہی منتخب اراکین اس کی پروا کررہے ہیں کیونکہ ان کی تنخواہیں برقرار ہیں، روزانہ کے اخراجات کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوتی، آنے جانے کیلئے بلٹ پروف گاڑیاںسکیورٹی حصاروں کے ساتھ دستیاب ہیں،مفت رہائش تمام ترآسائشوں کے ساتھ بھی دستیاب ہے، لہٰذا عوام کے مسائل چاہئے بھاڑ میں جائے یا ملکی معیشت کو رپشن اور بدعنوانیوںکی بھینٹ چڑھتی رہے، ان کیلئے باعث تشویش نہیں۔