ووٹ بینک کی سیاست ملک کے تانے بانے کا بیڑہ غرق کررہی ہے۔ ملکی سیاسی اُفق کو ہوس اقتدار کے متوالے سیاستدانوں اور ان کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ان کی درپردہ شکمی اکائیوں نے اقتدار کی دہلیز تک رسائی حاصل کرنے کیلئے’ ریزرویشن‘ کا راستہ اختیارکیا، اس کو عملی جا مہ پہنایا، غلط اورصحیح جو کچھ بھی طریقے اور سیڑھیاں ہیں ا نہیں بروئے کار لانے میںکوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے، سیاسی عزائم اور سیاسی اہداف کی تکمیل کیلئے مذہب، علاقہ اور طبقاتی نظریات کو تمام ازموںاور امورات پر مقدم سمجھ کر ریزرویشن کو حق ملکیت قرار دے کر مقدس گائے تک کا درجہ عطاکیاجارہا ہے۔
اس زمینی حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیںکہ مختلف زمروں کے تحت آبادی مشکل سے ۲۵۔۳۰؍ فیصد کے درمیان ہے لیکن ریزرویشن کی حد اب پچاس اور سٹھ فیصد کے ہندسہ کو بھی چھو رہی ہے۔ اس ریزرویشن پالیسی، جو صرف اور صرف سیاسی عزائم اور ہوس اقتدار کے حوالہ سے محور ومرکز بنتی جارہی ہے ملک کی اقتصادی، معاشرتی ، سیاسی ، تہذیبی ، توانائی اور سب سے بڑھ کر معیارات ،ذہانت واعلیٰ صلاحیتوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھانے میںاہم کردار ادا کرتی نظرآرہی ہے۔
ریزرویشن کے زمرے سے ملک کی مسلم آبادی کو مستثنیٰ قرار دے کر باقی جتنے بھی فرقے اور طبقے ہیں انہیں کسی نہ کسی ریزرویشن کے دائرے میں لایاجارہا ہے۔ قطع نظرا س کے کہ جن لوگوں کو زمروں میںلاکر تعلیم، پیشہ وارانہ اداروں، طبی شعبوں، ملازمتوں ، روزگار وغیرہ کے تعلق سے جنرل زمروں سے وابستہ لوگوں پر ترجیح دی جارہی ہے ان کی اکثریت لکھ پتی اور کروڑ پتی ہے، وہ شہروں میںکروڑوں روپے مالیت کی عالیشان کوٹھیوں نما محلات میںرہائش پذیر ہیں لیکن جب کسی شعبے کے تعلق سے بھرتی یا داخلہ کا عمل ہاتھ آجاتا ہے تو وہ ریزرویشن کا کشکول ہاتھ میں لے کر نمودار ہوجاتے ہیں۔ چاہے مسابقتی امتحانات میں ایسے کسی اُمیدوار نے جنرل زمرے کے تحت آنیو الے اُمیدوار کی طرف سے حاصل ۶۰۰ سے اوپر ہی مارکس؍پوائنٹس حاصل کیوںنہ کئے ہوں لیکن زمرہ کے تحت ڈیڑھ اور دوسو کے قریب نمبرات حاصل کرنے والا داخلہ ؍بھرتی ؍نوکری کا حقدار ٹھہرا یاجارہا ہے ۔
اس سارے تناظرمیں اب جموںوکشمیر پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ حد تک ریزرویشن کی اس تلوار کی زد میں آچکا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال محکمہ تعلیم میںخالی ۵۷۵؍ لیکچراروں کی جگہوں کیلئے اجرا نوٹس ہے جس میں جنرل (اوپن میرٹ) سے وابستہ اُمیدواروں کیلئے صرف ۲۳۷؍پوسٹ مختص رکھے گئے ہیں جبکہ مختلف زمروں کیلئے ۶۰؍فیصد کے قریب ۳۳۸۴؍مخصوص رکھے گئے ہیں۔لیکن حیرت اور شاک اسی ایک اشو تک محدود نہیں، جموںیونیورسٹی میں زیر تعلیم گوجر اور بکروال طبقوں سے وابستہ طلبہ نے گذشتہ روز سڑکوں پر آکر یونیورسٹی حکام کی لن ترانیوں اور مقامی بھرتی پالیسی کا مذاق اُڑاتے ہوئے بیرون جموں وکشمیر سے وابستگی رکھنے والے مختلف زمروں کیلئے نشستیں مخصوص رکھنے کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔
یہ کیا ہورہا ہے، کون ہے جو کشمیراور جموں کے پشتنی باشندوں کو زندگی کے ہر ایک شعبے سے محروم اور دور رکھنے کی سازشوں کا تانا بانا بن رہا ہے اور اس راستے پر چل کر کشمیراور جموں میںآگ کے شعلے کو بھڑکانے کیلئے زیر زمین آتش فشان کا بیج بویا جارہا ہے۔
جموں وکشمیر کی آبادی کا زائد از ۶۰؍ فیصد جنرل زمرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ریزرویشن پالیسی کچھ اس طریقے سے وضع اور مرتب کی گئی ہے کہ سرینگر کی اگر بات کی جائے تو اس کی ۲۰؍ لاکھ کی آبادی کسی بھی زمرے سے تعلق نہیں رکھتی لیکن حکومت بھرتی اور داخلہ عمل کے وقت دوسرے علاقوں سے لوگوں کو مختلف زمروں کے تحت منتخب کرکے سرینگر کی آبادی کے حقوق پر شب خون مار رہی ہے۔ بے شک جموں خطے میں آبادی کا ایک حصہ مختلف زمروں کے تحت شمار کیا جارہا ہے لیکن ان زمروں کیلئے پچاس اور سٹھ فیصد ریزرویشن صریح ناانصافی اور جنرل میرٹ سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کے مفادات اور حقوق پر شب خون ہے۔
ہم ریزرویشن کے خلاف نہیں کیونکہ ملک کے طول وارض میں سیاسی لیڈر شپ اور سیاسی جماعتیں اسی ریزرویشن سے اپنا سیاسی آکسیجن حاصل کررہی ہیں لیکن ریزرویشن آبادی کے شرح تناسب کے حوالہ سے ہونی چاہئے نہ کہ سیاسی مصلحتوں اور ووٹ بینک کے نظریہ ضرورت کے تحت۔ اس پالیسی یا بھرتی عمل کے حوالہ سے حکومتی اور اس کے اداروں کے طریقہ کار پر فوری بلکہ جنگی بُنیادوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے،کیونکہ اب لوگوں کا صبر وتحمل کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے، وہ اب مزید صبر کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
کشمیر اور جموں دونوں خطوں کے درمیان فی الوقت اگر چہ سیاسی تقسیم ہے لیکن ریزرویشن پالیسی کے حوالہ سے دونوں خطوں کی آبادی مشترکہ اپروچ اور نظریہ رکھتی ہے۔ مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ریزرویشن پالیسی کو تبدیل کردیاجائے تاکہ اوپن میرٹ کے تحت آنے والے اُمیدواروں کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مخصوص بھرتی ؍داخلہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے یا ضد کا راستہ اختیار کرنے سے یہ آتش فشان سرد نہیں پڑسکتا ہے بلکہ جتنی تاخیر نظرثانی کے عمل کے حوالہ سے ہوتی رہیگی اُتنی ہی یہ آگ اندر ہی اندر سے شدت اختیار کرتی جائے گی۔
ہم اُن کچھ افراد جو ریزرویشن کی سیڑھیاں چڑھتے ڈاکٹر بن گئے، بیروکریٹ بن گئے، انجینئر بن گئے یا زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے برسر روزگار ہوتے گئے کی صلاحیت، ذہانت اور قابلیت کے گہرے فقدان کو لے کر نشاندہی کرکے ان کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ایسی کوئی نیت ہے لیکن کچھ زمینی حقیقتیں تلخ ہوتی ہیں البتہ یہ دوسری بات ہے کہ ان زمینی حقیقتوں کابرملا اعتراف کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوتی۔
علاوہ ازیں ابھی چند ہفتے قبل NEETاور جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کی طرف سے کمبائنڈ امتحانات کے نتائج کا اعلان سامنے آیا۔ ان نتائج اور پھر اُمیدواروں کو زمرہ بندی کے دائرے میں سلیکشن دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے کہ کس طرح اوپن میرٹ کے تحت حد سے زیادہ نمبرات والے اُمیدوارمختلف زمروں کے تحت محض سو دوسو نمبرات حاصل کرنے والے اُمیدواروں کے ہاتھوں زمین بوس کردیئے گئے۔
نا انصافی اور سیاسی مصلحتوں کے مطیع یہ طریقہ کار فوری طور سے ختم ہونا چاہئے، یہی وقت کی آواز ہے اور ترسیل انصاف کے تعلق سے تقاضہ بھی!