بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کانگریس کیلئے کشمیر اپنے مفادات قربان نہیں کرسکتا

عمر حکومت عوامی منڈیٹ کا احترام کرے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-11-21
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

نیشنل کانفرنس کی اتحادی کانگریس کی یو ٹی لیڈرشپ اتحاد کے بارے میں مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ دونوں پارٹیوں کا اتحاد مضبوط اور مستحکم ہے لیکن حکومت کی تشکیل کے بعد سے اب تک صورتحال کے حوالے سے جو پیشرفت ہوسکی ہے وہ کچھ اور ہی کی جانب اشارے کر رہی ہے۔
  مہاراشٹر، جارکھنڈ وغیرہ میں انتخابات کے دوران حکمران بی جے پی نے جموںوکشمیر کی سیاست اور پارٹی منشوروں کو لے کر جس انداز میں رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا اور انہیں جذباتی رنگ میں رنگنے میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی کانگرس اُس دباؤ کی تاب نہیں لا سکی ہے اور اب تک گزرے کئی دنوں کے دوران کانگریس کی قیادت باالخصوص پارٹی صدر کھرگے اور یو ٹی کی کانگریسی لیڈرشپ بشمول طارق حمیدقرہ بار بار یہ صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے کہ کانگریس کالعدم شدہ دفعہ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے کی بحالی کا مطالبہ نہیں کرتی ہے کیونکہ ان آئینی دفعات کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے۔ البتہ کانگریس ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہے جس کو اتنی ہی عجلت کے ساتھ اب بحال کیا جانا چاہے جس عجلت کے ساتھ ریاستی درجہ ختم کر دیا گیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کانگریس کے اس موقف پر کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے صرف یہ کہنے پر اکتفا کر رہی ہے کہ ہمارا چنائو منشور عوام کے سامنے ہے، جبکہ کانگریس کے ساتھ اتحاد جموںوکشمیر تک محدود نہیں بلکہ یہ اتحاد ملکی سطح پر ہے اور نیشنل کانفرنس اپوزیشن اتحاد اِنڈیا بلاک کا حصہ ہے ۔
حکمران جماعت بی جے پی نے کانگریس کو اس حد تک دبائو میں لایا کہ اس کے لیے جموںو کشمیر کے تعلق سے آئینی ضمانتوں کی بحالی کے مطالبات سے دامن چھڑائے بغیر اور کوئی آپشن باقی نہیں رہ گیا تھا۔ کانگریس جس کی پارلیمنٹ میں تقریبا ۱۰۰؍ نشستیں ہیں اور ملک کی دوسری بڑی اکثرتی جماعت ہے کے لیے یہ سرنڈر شرمناک ہی نہیں بلکہ کانگریس کی اس شرمنا کی اور ڈھٹائی کی اپنی ایک تاریخ ہے۔
کانگریس صدر کھرگے کا یہ اعتراف درحقیقت ملک میں برسر اقتدار رہی کانگریس سرکاروں کی اُس شرمناک عہد شکنی کا ایک اور اعادہ ہے جو کانگریس پارٹی اور اس کی حکومتی قیادت جموںو کشمیر کے عوام اور اس کی لیڈرشپ کے ساتھ دوستی کے عہد و پیمان کی آڑ میں پیٹ پیچھے چھرا گھونپ گھونپ کر کرتی رہی لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ نیشنل کانفرنس کی وقت وقت کی قیادت کانگریس کے تلوے چاٹتی رہی اور یہی تلوے چاٹ چاٹ کر اپنے لیے تحفظ اقتدار کو یقینی بھی بناتی رہی اور حصول اقتدار کے راستے بھی ہموار کرتی رہی۔
بے شک نیشنل کانفرنس کو عوام کی طرف سے ایک بار پھر والہانہ حد تک منڈیٹ حاصل ہوا لیکن اس منڈیٹ کے پیچھے کچھ خواہشیں ہیں، کچھ سوالات ہیں، کچھ جائز مانگیں ہیں اور سب سے بڑھ کر سیاسی استحکام ،عزت نفس، ثقافت اور منفرد تشخص کے تحفظ کے تعلق سے حساس نوعیت کی کئی ایک آرزوئیں ہیں۔ عوام کے تعاون سے اقتدار تو ملا لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ عوام کی یہ ساری خواہشیں اور درپیش مسائل کب تک حل ہوں گے یا تمام تر توجہ اور توانائی استحکام اقتدار اور اس حوالہ سے جانے والے راستوں کی آبیاری پر ہی مرتکز رہیگی؟
انتظامی سطح پر معاملات حصول اقتدار کے ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوصف ابھی تک ہائی برڈ حکومتی نظام کے بھنور میں پھنسے ہیں ۔ریکروٹمنٹ سے جڑے معاملات ،بے روزگاری ایسے سنگین مسئلے پر عدم پیش رفت، بجلی کا بحران ایک نئے آکار میں عوام کے سر پر سایہ فگن کر دیا گیا ہے، ریزرویشن کی حد ۶۰؍ فیصد کو چھو رہی ہے جبکہ ریزرویشن کے زمرے میں جو لوگ شرح تناسبت کے تعلق سے آبادی کا حصہ بنے ہوئے ہیں ان کی مجموعی آبادی اتنی نہیں ہے جبکہ ان زمروں کے تحت ریکروٹمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے بیرون جموںو کشمیر سے بھی بھرتیاں عمل میں لانے یا جگہیں مخصوص رکھنے کی باتیں اب شدت کے ساتھ سامنے آرہی ہے، اس حوالے سے جموںیونیورسٹی میں گوجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ سڑک پر بھی آ چکے ہیں ،۵۷۵ لیکچر اروں کی بھرتی کیلئے جنرل زمرے کے تحت صرف۲۳۸جگہیں مخصوص رکھی گئی ہیں جبکہ زمروں کے لیے ۳۳۷؍ جو ریزرویشن کی ۶۰ فیصد سطح کو چھو رہے ہیں ۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، تبدیلی کے لئے لوگوں نے ووٹ دیئے لیکن زمینی سطح پر کوئی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے اور نہ ہی محسوس کی جا رہی ہے، بے شک سالانہ دربار مو کی بحالی ایک مدعا ہو سکتا ہے لیکن یہ مدعا اتنا اہم نہیں جتنا کہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جن علاقوں میں لوگوں نے تعلیمی ،پیشاورانہ اداروں، سڑکوں کی کشادگی اورتعمیرات کے حوالے سے اپنی اراضیاں حکومت کو سونپ دی ہیں ان میں سے بیشتر یا تو معاوضوں کی ادائیگی کے منتظر ہیں یا اپنے لئے متبادل روزگار کے لئے دکانیں تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا جا رہا ہے۔ کیا یہ طرز عمل ، آمریت اور استحصال نہیں؟
جموں اور کشمیر دونوں خطوں کے مشہور سیاحتی مقامات کو کنکریٹ جنگلوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ناجائز تعمیرات کے ساتھ ساتھ ان مقامات کی زمینوں کو اونے پونے داموں فروخت کر کے ماحولیات کے ساتھ سنگین چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے ۔لیکن ان سنگین نوعیت کے اشوز کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کی بجائے نہ حکومت سنجیدگی دکھا رہی ہے اور نہ ہی جموںنشین اپوزیشن جس کے پاس اسمبلی میں ۲۹؍ ممبر اںکی طاقت ہے اور نہ ہی کشمیر نشین اپوزیشن سیاسی جماعتیں ۔ان سب کی بیان بازی کا محور و مرکز حکومت کے چہرے پر کوئی کالا تل تلاش کرنے تک ہی اب محدود رہ چکا ہے ۔
الیکشن کے بعد اُبھرے اس نئے منظر نامے نے کئی ایک خدشات کو بھی جنم دے دیا ہے۔ بے شک کچھ حلقے اس خیال کے ہیں کہ یہ خدشات وسوسے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن حساس حلقے مطمئن نہیں ،ان کا ماننا ہے کہ صورتحال حکومت کیلئے Do or Dieکی سی ہے ۔اگر حکومت فوری نوعیت کے اشوز کو سنجیدگی سے نہیں لیتی اور اپنی تمام تر توجہ حاصل محدود اختیارات پر مرتکز رکھ کر اِسی پر اکتفا کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے توجموںو کشمیر ایک بار پھرعدم استحکام کی طرف واپس لوٹ جائے گا۔
اس سارے تناظرمیں نیشنل کانفرنس کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے چنائو منشور اور عوام سے کئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کمربستہ ہوجائے اور کانگریس کا دم چھلہ بنے رہنے کی اپنی پسندیدگی پر عوام کے وسیع تر مفادات میں نظرثانی کرے۔ کشمیرکے مفادات کو کانگریس یا اپوزیشن اتحاد کی بلاک کے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا ہے اور نہ کشمیر اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

کشمیر کی پارٹیوں کی سیاست

Next Post

مجھے ابھی بھی لگتا ہے! بھارت کی ٹیم پاکستان آئے گی…

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post

مجھے ابھی بھی لگتا ہے! بھارت کی ٹیم پاکستان آئے گی...

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.