ہفتہ, مئی 10, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

تذبذب اور خون بہا کی حالت آخر کب تک؟

مسائل کا حل جنگ میںنہیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-11-20
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

میرواعظ کشمیر مولوی عمر فاروق نے اپنے ایک حالیہ بیان میں سوال بھی کیا ہے اور واضح بھی کہ ’’نسل درنسلیں تذبذب اور خون بہا میں زندگی نہیں گذارسکتی ہیں اور اس صورتحال کا واحد حل یہ ہے کہ بات چیت کا راستہ اختیار کیاجائے کیونکہ تشدد، دبائو اور گن کلچر کے بطن میںکوئی حل نہیںہے‘‘۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب میرو اعظ نے اس مخصوص اشو پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی وہ کئی مرتبہ دیرپا حل تلاش کرنے کیلئے بات چیت کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ اس حوالہ سے انہوںنے واضح کیا ہے کہ حالیہ الیکشن میں لوگوںنے ووٹ دے کر حکومت کی تشکیل کا راستہ توہموار کیا ہے لیکن یہ حکومت جس کے محدود اختیارات ہیں اس سیاسی اشو کوایڈریس نہیں کرسکتی ہے بلکہ اشو کو ایڈریس کرنے کیلئے نئی دہلی کو کشمیرکے بارے میں اپنے اپروچ پر نظرثانی کرکے اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ لوگ آخر کب تک تذبذب اور خونین سے عبارت ماحول میںزندگی گذارتے رہینگے۔
بات چیت کس کے ساتھ؟ ظاہر ہے اس کے کئی پہلو ہیں، ایک خارجی اور دوسرا گھریلو۔ اندرون خانہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن ان مذاکرات کے جتنے بھی انداز اور پہلو رہے ہیں ان سے کچھ ایک معاملات توطے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ حتمی نہیں کیونکہ بُنیاد موجود ہے جس کا تعلق خارجی پہلو سے ہے۔ اس خارجی پہلو کا تعلق اور وابستگی سرحدکے اُس پار پاکستان سے ہے جس کے زیر کنٹرول جہاں جموںوکشمیر کا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس میں مظفر آباد اور گلگت بلتستان بھی شامل ہے اور جن کی مجموعی آبادی فی الوقت ایک محتاط اندازہ کے مطابق ۶۰؍ لاکھ کے قریب ہے اور جس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کنٹرول لائن کے اِس پار کشمیرکے مستقبل کی حیثیت کا تعین کرنا باقی ہے۔
اس کے برعکس ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے اُس پار کا سارا علاقہ جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور اس کے مستقبل کی حیثیت کا تعین ابھی باقی ہے ۔ جبکہ یہ کشمیر ملک کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے،پھر بات چیت کے حوالے سے ملک کا موقف مسلسل یہ سامنے آتارہا ہے کہ دہشتگردی ،دراندازی اور در پردہ جنگ کے ہوتے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ اگر چہ بین الاقوامی فورمو ںاور دوسرے اداروں میں فریقین اور ان کے حامی مسلسل طور سے کشمیر کا حوالہ دیتے رہتے ہیں اور ان فورموں میں حامی ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی بھی کرتے ہیں، بلند و بانگ دعویٰ بھی کرتے ہیں ،اعلیٰ سطحی وفود ان اداروں میں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے بھیجتے رہتے ہیں،ہیومین رائٹس سے وابستہ ادارے بھی وقفے وقفے سے رپورٹیں شائع کرتے رہتے ہیں، لیکن ان سبھی حرکتوں اور سرگرمیوں کے باوجود صورتحال جوں کی تو ںہے اور اِسی جوں کی توںکی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے وقفے وقفے سے آواز بلند کی جاتی رہی ہے جن آوازوں میں میر واعظ کشمیر بھی شامل ہیں۔
کشمیر بحث مجموعی تشدد ،تخریب، فساد، قتل وغارت اور ان بہیمانہ واقات سے جڑے ہر ایک پہلو اور شئے کو مسترد کرتا ہے اور اقوام عالم کے ساتھ شانہ بشانہ اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کا خواہشمند ہے ۔درپردہ جنگ اس پر مسلط شدہ ہے، خود کشمیر نے کبھی کسی مرحلے پر جنگ نہیں کی۔ البتہ بات چیت کی خواہش کا برملا اظہار کو زبان دی جاتی رہی ہے۔ یہ خواہش اپنی جگہ یہ دوسری بات ہے کہ کشمیر کی سرزمین دہشتگردی، تشدد، قتل و غارت ، آتشزدگی ایسے معاملات بیچ راستے میں پیش آئے۔
کشمیر تو پُرامن اور پرسکون تھا، بیچ راستے میں ایسا کیا ہوا کہ ہر طرف آگ بھڑک اُٹھی، یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر غور کرنے کی نہیں بلکہ تمام تر پیش آمدہ واقعات، معاملات ،کشمیر کے تئیں اپروچ ،ترقیات اور کشمیر کے حساس نوعیت کے معاملات کے حوالے سے مخصوص سیاسی عینک اور متعصبانہ اپروچ کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے رویوں اور طرز عمل کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس غور و فکر اور گہرائی سے تجزیہ کرنے پر جو نتائج سامنے آ سکتے ہیں ان میں یقینی طور سے یہ ایک نتیجہ بھی اُبھرکر سامنے آئے گا کہ ان سارے معاملات کو ایک کاک ٹیل کی صورت میں پلیٹ پر سجا کر سرحد کے پار پیش کیا گیا جس نے اس کاک ٹیل کو اپنے لیے آکسیجن سمجھ کر کشمیر کے حوالے سے اپنا روڈ میپ وضع کر لیا جس کی سزا صرف کشمیر بھگت رہا ہے ۔
جنگ و جدل تباہی و بربادی کا دوسرا نام ہے ۔کشمیر اس جنگ وجدل کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے ماضی میں کم سے کم تین خونین اور تباہی و بربادی سے عبارت جنگوں کو دیکھا بھی ہے اور سہا بھی ہے اور فی الوقت درپردہ جنگ سے لگے زخموں کو ۳۵؍ برسوں سے برداشت بھی کر رہا ہے اور سہلا بھی رہا ہے۔ جنگ کی تباہی و بربادی کا کرب ان لوگوں سے پوچھیں جو سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ مسلسل تقریبا ۷۰؍ برسوں کے دوران اس کرب و ابتلا کی حالت میں زندگی گزارتے رہے ہیں البتہ اب کچھ ایک برسوں سے کنٹرول لائن پر آر پار کی جنگ بندی کے طفیل قدرے پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آر پار کی اس جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے کسی جنگی حکمت عملی یا جنگی جنون کا راستہ نہیں اختیار کیا گیا بلکہ آر پار کی متعلقہ قیادتوں نے آپس میں بات چیت کر کے اس جنگ بندی پر اِتفاق کیا جو اب برقرار ہے۔
اگر کنٹرول لائن کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کا راستہ گناہ یاجرم نہیں اور نہ ملکی کسی پالسی یا موقف کے خلاف ہے تو مجموعی اشو پر بات چیت سے مسلسل انکار کاکوئی معقول جواز نہیں ۔ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی، حکومتی، سفارتی، ٹریک ٹو ڈپلومیسی ،دوست ممالک کی مداخلت اور سہولت کاری وغیرہ کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی ہے ،ان مذاکرات کے نتائج کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ زندگی اور ملکوں کے درمیان تعلقات آپسی روابط، تجارت، کھیل ،ثقافت وغیرہ کے شعبوں میں قریبی تعلق قائم ہوتا رہا کیونکہ مذاکرات کا کوئی بھی متبادل نہیں ۔جنگ میں اُلجھنے کے باوجود بالآخر ممالک کو جنگ بندی یا درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آپشن ہی اختیار کرنا پڑتا رہا ہے ۔یہ عالمی تاریخ ہے جس تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے ۔
اس مخصوص تناظر میں جب میر واعظ کشمیر یا اور کوئی کشمیر نشین سیاستدان اشو کا دائمی حل بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو وہ ان کی اپنی ذاتی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ کشمیر کی چاہت ہے جو ملک کی اعلیٰ سیاسی اور حکومتی قیادت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جو مسئلہ کشمیر اور ملک کے لیے بھی سوہانی روح اور باعث تکلیف بن چکا ہے اُس تکلیف سے انہیں نجات اور چھٹکارا دلانے کے لیے وہ ٹھوس کردار ادا کرے۔ کشمیر کی مستند سیاسی اور عوامی قیادت کا اس مخصوص ایشو کے تعلق سے جو اظہار سامنے آرہا ہے وہ خوش آئند ہے اور اس میں مستقبل کے حوالے سے اطمینان اور بقائے باہم کی جھلک نظر آرہی ہے لہٰذا اس خواہش کو نکارا نہ جائے۔
۔۔۔۔۔۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

کانگریس: ضروری یا غیر ضروری بوجھ ؟

Next Post

چیمپئینز ٹرافی؛ پاکستان نے ہائبرڈ ماڈل پھر مسترد کردیا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ٹی20 ورلڈ کپ 2024 جون میں منعقد ہو سکتا ہے

چیمپئینز ٹرافی؛ پاکستان نے ہائبرڈ ماڈل پھر مسترد کردیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.