بیجنگ//
واشنگٹن میں چین کے سفیر نے کہا کہ چین امریکہ کا شراکت دار اور دوست بننے کے لیے تیار ہے۔ اس بات سے چین کا مقصد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان مکالمے کو مضبوط بنانا ہے۔
امریکہ میں چین کے سفیر ژی فینگ نے جمعہ کو ہانگ کانگ میں چینی حکام اور چین میں امریکی سفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا، چین کا امریکہ کو پیچھے چھوڑنے یا اس کی جگہ لینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔بیجنگ جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں واپسی سے قبل واشنگٹن کے ساتھ تعلقات از سرِ نو ترتیب دینے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹرمپ نے چینی درآمدات پر 60 فیصد سے زیادہ محصولات عائد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن بیجنگ اور چینی کمپنیوں کو امید ہے کہ ٹرمپ کی تحفظ پسند پالیسیاں یورپ اور ایشیا میں امریکی اتحادیوں کو بھی ناراض کریں گی جس سے چین کو اپنا عالمی اثر و رسوخ بڑھانے اور تجارتی تعلقات کو بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔
چینی صدر شی جن پنگ نے جمعے کو اقتصادی عالمگیریت کے حق میں یک رُخے نظام اور تحفظ پسندی کو مسترد کرنے کا تقاضہ کیا۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے زیرِ قیادت امریکہ کے مقابلہ میں چین کا مؤقف 2016 کے مقابلے میں اپنا اثر کھو چکا ہے جب ٹرمپ پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے۔
ژی نے کہا کہ چین-امریکہ شراکت داری کبھی بھی صفر حاصلِ جمع کا کھیل نہیں ہے۔ نیز انہوں نے کہا، دونوں ممالک کے پاس تجارت، زراعت، توانائی، مصنوعی ذہانت اور صحتِ عامہ کے شعبوں میں مل کر کام کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔
ژی نے ہر فریق کے خدشات دور کرنے کے لیے "مکالمے” کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، "یہ مکمل طور پر ممکن ہے کہ بے تکلفانہ گفتگو کے لیے مسائل کو مذاکرات کی میز پر لایا اور مساوی سطح پر حل تلاش کیا جائے”۔
انہوں نے کہا، تائیوان سب سے بڑا "نکتۂ اشتعال” ہے جو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تصادم اور تضاد کا باعث بن سکتا ہے اور تائیوان میں "علیحدگی پسندوں” کی واضح مخالفت پر زور دیا۔
یاد رہے کہ چین جمہوری طور پر زیرِ حکومت تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے جبکہ تائی پے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔