آئینی اور قانونی ماہرین بھی اور سیاسی پنڈت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ منسوخ شدہ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍اے صرف پارلیمنٹ ہی بحال کرسکتی ہے جموںوکشمیراسمبلی نہیں۔ اسمبلی نے اپنے پہلے سیشن کے تیسرے روز جموںوکشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی سے متعلق قرارداد صوتی ووٹ سے پاس کی جس میں اور باتوں کے علاوہ مرکزی سرکاری سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی بحالی کے تعلق سے عوام کے منتخبہ نمائندوں کے ساتھ بات شروع کرے…‘‘
حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے الیکشن میدان میں اُتر تے عوام سے اور باتوں کے علاوہ اس مخصوص معاملہ کو لے کر منڈیٹ مانگا ، عوا م نے یک زبان ہوکر لبیک کہی اور پارٹی بھر پور عوامی اعتماد کے ساتھ اقتدارمیں آگئی۔اس مخصوص تناظرمیں پارٹی کا اسمبلی میں خصوصی درجہ کی بحالی کیلئے قرارداد پیش کرنا اور مرکزی قیادت سے اس کا مطالبہ کرنا نہ صرف عوامی خواہشات اور حاصل عوامی منڈیٹ کی تکمیل اور احترام ہے بلکہ سیاسی نظریہ کے تعلق سے ایک پرامن طریقہ کار ہے کیونکہ ظاہر ہے قرارداد میں یہ نہیں کہاگیا کہ ایوان خصوصی درجہ بحال کررہاہے بلکہ مرکزی سرکار سے آپسی مشاورت کا مطالبہ کیاگیا ہے۔
لیکن اپوزیشن جس نے غالباً منسوخ شدہ دفعات کے حق میں اپنی انتخابی مہم چلا کر جموں سے منڈیٹ حاصل کیا نے قرارداکی مخالفت کی، قرارداد کی نقول کو پھاڑ دیا، مذہبی اور سیاسی نعرہ بازی کی یہاں تک کہہ دیا کہ نیشنل کانفرنس کی حکومت پاکستان کا یجنڈا کو عملی جامہ پہنارہی ہے۔ اس تعلق سے کچھ ایک اہم سوال ہیں۔ کیا ایوان اسمبلی میں ’جے شری رام‘ کے نعرے آئین کے مطابق ہیں اور کیا یہ مذہبی نعرہ بازی ہجومی تشدد کی عکاسی کرکے ایوان کی توہین اور تقدس کی پامالی کے مترادف نہیں؟ منسوخ شدہ آئینی دفعات پر نہ رام کے نعرے بلند کرنے سے مہر تصدیق ثبت ہوسکتی ہے اورنہ اللہ اکبر نعرہ بلند کرنے سے یہ دفعات بحال ہوسکتے ہیں۔
اپوزیشن کے ایک رکن شام لال شرما جو ماضی میں کانگریس سے وابستہ رہے ہیں اور ریاست کی خصوصی پوزیشن اور دفعہ ۳۷۰؍ کے نافذ العمل رہتے نیشنل کانفرنس کی قیادت میں قائم حکومت میںوزارتی کونسل کے بھی رکن رہے ہیں اور ایک اوررکن مسٹر سلاتھیہ جونیشنل کانفرنس کی بیساکھیوں کے سہارے وزارتی عہد ے پر بھی فائر رہ چکے ہیں ایوان میں اپوزیشن کی لیڈ کرتے دیکھے گئے اورنعرہ بازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا سب سے بڑا الزام یہ رہا کہ ’’شیخ عبداللہ سے لے کر عمرعبداللہ تک جموں وکشمیرکی جذباتی بلیک میلنگ معمول کی بات رہی ہے‘‘۔چنانچہ انہوںنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’نیشنل کانفرنس شرم کرو شرم کرو‘‘ کے بھی نعرے بلند کئے۔ اپوزیشن نے سپیکر کی غیر جانبداری پر بھی سوال اُٹھایا ۔
اس زمینی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ہے البتہ اب اس کی ایک اور تاریخی حیثیت بن گئی ہے اُس سے انکار نہیں لیکن اپوزیشن کو صبروتحمل او ربردباری سے کام لینا چاہئے تھا۔ ایوان میں کسی معاملے پر مخالفت کرنا یا تنقید اپوزیشن کو ہی نہیں ہر رکن کو یہ حق اور اختیار حاصل ہے لیکن منڈیٹ ہنگامہ آرائی کیلئے نہیں بلکہ عوام کو درپیش مسائل کا دیرپا حل تلاش کرنے کیلئے ہے۔ ہررکن اپنی سوچ اور نظریہ کے مطابق اپنے سیاسی نظریہ کے اظہار کے لئے بھی آزاد ہے لیکن ایوان کو سیاسی نظریات کے خول میں قید کرنا عوامی منڈیٹ کی پیٹ میں کُند چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس تناظرمیں قرارداد کو ایوان میں پیش کرنے اور اس کی مخالفت میںہنگامہ آرائی کرنے کا جو راستہ فریقین نے اختیارکیا اُس کا تعلق دونوں کے سیاسی نظریات اور موقف سے تو ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دوونوں اپنے اپنے ووٹ بینک کو پیغام دے رہے تھے۔
مذکورہ قرارداد کاتعلق جموںوکشمیر کے خصوصی درجے کی بحالی اوربحالی کی سمت میں منتخبہ نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے ہے لیکن اپوزیشن نے اپنی نعرہ بازی میں حکمران جماعت کی اس مخصوص قرارداد کو ملک مخالف ایجنڈا قرار دے کر ۵؍اگست زندہ باد وغیرہ کے نعرے بھی بلند کئے جبکہ اپوزیشن لیڈر نے احتجاج کے دوران کچھ اختراعی باتوں کو بھی زبان دی۔
حکمران نیشنل کانفرنس کی طرف سے قرارداد لانے کے پیچھے یہ حکمت عملی بھی خاص طور سے قابل ذکر اور قابل توجہ ہے جس کا تعلق پی ڈی پی کی جانب سے گذشتہ روز پیش قرارداد اور اس کے پیچھے پی ڈی پی کی سیاسی حکمت عملی جس کا بُنیادی مقصد نیشنل کانفرنس کو گھیرے میں لے کر اس پر دبائو ڈال کر کشمیر میںاپنی کھوئی ساکھ کسی حد تک بحال کرنے سے ہے کو پی ڈی پی پر پلٹ وار کرنے سے بھی ہے۔ غالباً نیشنل کانفرنس اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب نظرآرہی ہے کیونکہ قابل اعتماد ذرائع اس بات کا دعویٰ کرتے رہے کہ پی ڈی پی نے اپنے اسمبلی ارکان کو ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ اس مخصوص اشو پر نیشنل کانفرنس کا سیاسی حلیہ بگاڑنے میں کسی رورعایت سے کام نہ لیں۔ بظاہر قرارداد اسمبلی میں پیش کرکے نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کی اس منصوبہ بندی یا حکمت عملی کو جڑ سے ہی اُکھاڑ کر رکھدیا ہے۔تاہم قرارداد کے ردعمل میں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے قرارداد کو نیم دلانہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ قرارداد میں سخت لہجہ اور انداز اختیار کرناچاہئے تھا ۔ بقول کسے محبوبہ کا یہ ردعمل اُنگور کھٹے ہیں کے مصداق ہیں۔
بہرحال تصویر کا یہ اہم ترین رُخ نہ کشمیر اور نہ جموں کے عوام کو نظرانداز کرناچاہئے کہ بے شک دفعہ ۳۷۰؍ جموںوکشمیر عوام کی اکثریت کیلئے بے حد جذباتی ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ آئین میں شامل کئے جانے اور آئین کا حصہ بنانے کے فوراً بعد سے ہی اس دفعہ کو کانگریس حکومت کی قیادت میں اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنایا جاتا رہا ، یہ عمل آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام تک پہنچائی گئی، ابتداء ان لوگوں نے کی جنہوںنے الحاق کو یقینی بنانے اور عوام کے ساتھ عہد وپیمان باندھنے میں تاریخی کردارادا کیا لیکن وہ اپنے عہد وپیمان کے ساتھ وفا نہ کرپائے اور عہد شکن ثابت ہوئے۔
بی جے پی نے اپنے سیاسی نظریات کے مطابق اس دفعہ کو ختم کیا، تو گلہ کس سے اور کیوں؟ جہاں تک جموں وکشمیرکی برسراقتدار جماعتوں… نیشنل کانفرنس ،کانگریس ، پی ڈی پی وغیرہ کے کردار وعمل کا تعلق ہے تو اُس تعلق سے معاونتی کردارادا کرکے وقت وقت پر اپنے اقتدار کو ہی تحفظ حاصل کرتے رہے۔ اس مدت کے دوران نیشنل کانفرنس نے اپنے رول پر پردہ ڈالنے کیلئے اندرونی خودمختاری کے تعلق سے قرارداد اسمبلی سے منظورکرائی جبکہ پی ڈی پی اپنے بانی مفتی محمدسعید کی قیادت میں سیلف رول کا نعرہ دیتی رہی۔ نہ سیلف رول ملا اور نہ اندرونی خودمختاری ۔
اب آج کی تاریخ میں یہ دونوں پارٹیاں ان مخصوص اشوز کو لے کر جوڈرامہ بازی سٹیج کر رہی ہیں بے شک کچھ لوگ ان کی اس ڈرامہ بازی اور کرتبوں سے متاثر ہورہے ہوں لیکن سنجیدہ فکر اور حساس حلقے جو تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، نہیں!