نرم وگرم، تُند وتیز یا شیرین لہجے میں تقریریں چاہے اسمبلی کے اندر کی جائیں یا یوان سے باہر کی جائیں کی کچھ بھی اہمیت اور افادیت نہیں ماسوائے اس کے کہ کیمروں کے سامنے گیلریوں سے کھیلاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تقریروں سے کچھ وقت کیلئے جذبات میں ارتعاش ضرور پیدا ہوجاتا ہے لیکن غبارہ سے آہستہ آہستہ ہوا خارج ہوتے ہوتے کے مصداق ان جذبات میں بھی ٹھہرائو آہی جاتا ہے۔
اسمبلی اجلاس کے پہلے دن جس ہنگامہ آرائی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اُس نے عوام کو مایوس کردیاہے۔ اس لئے نہیں کہ ایک ممبر نے اپنی کچھ پارٹی اور کچھ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر قرارداد پیش کی اور اپوزیشن اراکین نے مخالفت میں شور برپا کردیا بلکہ مایوسی اس لئے کہ سالہاسال کے بعد لوگ منتخبہ اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز کا مشاہدہ کررہے تھے اور یہ توقع کررہے تھے کہ اجلاس پُروقارانداز میں چلتا رہے گا اور عوام کو درپیش گوناگوں معاملات اور مسائل کا حل کیسے تلاش کرلیاجائے گا کے تعلق سے آپس میں مشاورت بھی کریں گے اور ایک دوسرے کو پارٹی وابستگیوں اور پارٹی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تعاون بھی کرتے نظرآئیں گے۔برعکس اس کے وہی پرانی روایت دہرائی گئی جو ماضی کے ایوانوں کا خاصہ رہی ہے ۔ مختصر الفاظ میں کوئی بھی نہ اپنی وضع بدلنے پر آمادہ ہے اور نہ خوتبدیل کرنے کیلئے تیار ہے۔
بی جے پی کو جموںکا تقریباً مکمل منڈیٹ حاصل ہے جبکہ کشمیر سے نیشنل کانفرنس کو۔ دونوں خطوں کے ان منڈیٹوں کا واضح پیغام یہ ہے کہ منتخبہ اراکین عوامی مسائل کا باوقار ، قابل عمل اور دیر پا حل تلا ش کرنے کی سمت میں سرجوڑ کر بیٹھ جائیں۔ یہ منڈیٹ علاقہ پرستی ، جنو ن یا کسی اور حوالہ سے کسی فوبیا کو بڑھاوا دینے، عوام اور عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے ، طبقاتی سطح پر دراڑیں ڈالنے یا ان کے درمیان دوریوں اور فاصلوں کو بڑھانے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ دس سال کی لغزشوں، خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوںسے جو درد عوام کو ملا، جو تکلیف لوگوں کو ہوئی ،جو کچھ لوگوں کو سہنا پڑا ان سبھی پر مرہم رکھنے کی سعی کی جائے ، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ لوگوں کے دوالگ الگ نظریات کے تعلق سے جو منڈیٹ اُبھر کرسامنے آیا جس کو عام فہم زبان میں کشمیر اور جموں کے خطوں کے درمیان سیاسی تقسیم کا چولہ پہنایا جارہا ہے اب کچھ قوتیں اُس تقسیم کو نہ صرف شدت عطاکرنے کی کوشش کررہی ہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے دائو پیچ کھیلنے کیلئے میدان میں اُترے نظرآرہے ہیں۔
اس نظریاتی یا خطوں کے درمیان سیاسی تقسیم کا خاتمہ صرف اور صرف اس راستے چل کرکیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اپنے جموں کے منڈیٹ کی طاقت کو کشمیر سے نیشنل کانفرنس کو حاصل منڈیٹ کا احترام کرے اور نیشنل کانفرنس کشمیر سے حاصل اپنے منڈیٹ کی طاقت کو جموں سے بی جے پی کو حاصل منڈیٹ کا برابری کی بُنیاد پر احترام کرے۔ کس کو کیا ووٹ شرح ملا وہ اب قصہ پارینہ بن جانا چاہئے جبکہ منتخبہ اراکین کے ساتھ ان کی پارٹیوں کیلئے بھی یہ لازم ہونا چاہئے کہ وہ اب خود کو الیکشن موڈ Modeسے باہر آجائیں کیونکہ اب سب کو حقیقی دُنیا، زمینی حقیقت اور اس تعلق سے عوام کی خواہشات اور ضروریات کے حوالہ سے اپنے اندر احساس اور ذمہ داری کا عنصر اور جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ترجیح ہونی چاہئے۔
تقریروں ، ہنگامہ آرائیوں اور مخالفت کا اگر کوئی شوق کسی کو ہے تو وہ ایوان سے باہر اپنے اس شوق کو پورا کرے لیکن اسمبلی کے اندر ہنگامہ آرائی اور شور وشر کا راستہ اختیار کرکے ایوان کاتقدس پامال نہ کریں۔ اس اسمبلی کے قیام کیلئے گذرے کئی برسوں سے ہر پارٹی اور ہرسیاستدان بشمول عوام کی اکثریت جدوجہد کرتی رہی ہے۔ مرکزی حکومت کو بھی نشانہ بناتی رہی ہے اورالیکشن کی راہ میں حائل اور رخنہ انداز ہونے کا الزام مسلسل عائد کرتی رہی ہے۔ اب جبکہ پارٹیوں اور عوام کی خواہشات کا احترام بجا لایاگیا، اسمبلی الیکشن کے بعد تشکیل پاگئی نئی منتخبہ عوامی حکومت وجود میں آگئی تو کسی کے یہ زیب نہیں دیتا کہ اب ہاتھ آئے وقتوں اور لمحوں کو سیاسی مصلحتوں کے تابع ہنگامہ آرائی کی نذر کیاجاتا رہے۔
بے شک اپوزیشن حکومت اور انتظامیہ کو رگڑے دے، عوامی مسائل کے تئیں کسی بھی لاپرواہی، بے اعتنائی، غفلت اور کسی بھی طرح کے ممکنہ بدعنوان طرزعمل یا ریڈ ٹیپ ازم کے خلاف پوری شدت کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے اور حکومت اور اس کی ایڈمنسٹریشن کو مسلسل دبائو میں رکھے تاکہ وہ عوام کے مسائل کے تئیں کسی غفلت میں نہ پڑجائے یااقتدار حاصل کرنے پر بدمستی کے کسی راستے پر ہولے ان معاملات جن کا تعلق انداز فکر، طرزعمل اور اپروچ سے ہے پر کڑی اور قریبی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور یہی عوامی منڈیٹ کا بھی تقاضہ ہے، عوامی منڈیٹ کا تقاضہ شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی نہیں۔
بہرحال اسمبلی کے پہلے روز کے اجلاس کے تعلق سے اطمیان بخش بات لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی تقریر کی صورت میں سامنے آئی جس میں حکومت کے روڈ میپ کی نشاندہی کی گئی ہے اور انتظامیہ ترقیات اور معاملات کے تعلق سے کم وبیش سبھی معاملات کا احاطہ کیاگیا جو آنے والے ایام میں حکومت کی ترجیحات ہوں گی۔ جن میں سے کچھ ایک کا تذکرہ حکمران پارٹی نیشنل کانفرنس کے چنائو منشور میں بھی موجود ہے۔
گورنر کے اس خطبے میں ٹکرائو کی کوئی بھی گنجائش نہیں محسوس کی جارہی ہے، اگر چہ ظاہر ہے یہ خطبہ حکومت ہی کا مرتب کردہ ہے لیکن گورنر کی زبانی اس کا اعادہ یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ گورنر کو حکومت کی کام کرنے اور امورات کی انجام دہی کے حوالہ سے ترجیحات پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر حکومت کی تشکیل سے بہت قبل یہ واضح کرچکے ہیں کہ قوائد وضوابط اور آئین کی روشنی میں کام کرنے کے اختیارات کا تعین موجود ہے، ٹکرائو کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ آپسی تعاون اور اشتراک عمل مقدم رہے گا۔
لوگ بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔ مسائل اور معاملات کا انبار ان کے سامنے ہے جوا نہیں مختلف طریقوں سے ڈس بھی رہا ہے اور دیمک کی طرح چاٹ بھی رہا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال سے جموںوکشمیر اور اسکی آبادی کو باہر نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی نعروں سے اجتناب کیاجائے، بے شک دفعہ ۳۷۰؍ کی مخالفت اور بحالی کے نعروں کو لے کر الیکشن لڑا گیا لیکن یہ معاملات ایسے ہیں کہ ایوان کو ان سیاسی نعروں کا قیدی نہیں بنایا جانا چاہئے۔ تمام تر توجہ مسائل کے حل اور ترقیاتی عمل کے تسلسل پر مرکوز رہنی چاہئے۔
۔۔۔۔