جمعرات, جولائی 10, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

ریاستی درجہ کی بحالی کی قرارداد

تنقید سیاسی جاہلیت کا دوسراروپ!

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-10-20
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

عمر عبداللہ کی قیادت میں حکومت کی تشکیل کے پہلے ہی لمحہ بعد اس تاثر کا آغاز ہو اکہ عمر کے لئے یہ حکومتی تاج پھولوں کا نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہی نہیں ثابت ہوگا بلکہ اس کے سیاسی مخالفین چاہے اندرون وادی سے تعلق رکھتے ہیں یا جموں سے یا جموں وکشمیرکی جغرافیائی حدود سے باہراسے تنقید کی زد میں رکھیںگے کیونکہ اس مخالفت اور تنقید برائے تنقید کے بغیر وہ اپنی شکست خوردہ سیاست کی دکان کا بھرم برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ابھی کابینہ نے اپنی پہلی میٹنگ میں ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ سے متعلق قرارداد کو زبان بھی نہیں دی کہ مخالفین پی ڈی پی، بی جے پی، پیپلز کانفرنس اور انجینئر رشید کی شکل وصورت میں سڑکوں پرآگئے اور حکومت کو یہ کہکر تنقید کا نشانہ بنایا کہ عمر عبداللہ نے ایک اور یوٹرن لے لی، قرارداد اسمبلی میں پیش کی جانی چاہے تھی لیکن کابینہ میں پاس کی گئی ، جس کابینہ کے بارے میںسجاد غنی لون صاحب کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ کابینہ عوام کی خواہشات کی مظہر نہیں کیونکہ بقول ان کے لوگوں کی خواہشات کی آئینہ دار کابینہ نہیں بلکہ اسمبلی ہے جبکہ کابینہ کی حیثیت صرف گورننس سے ہے جسے انہوںنے گورننس کے حوالہ سے اکثریتی ادارہ قراردیا۔
پی ڈی پی کے ممبراسمبلی وحید پرہ نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے فتویٰ دیا کہ قرارداد دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے پیش کی جانی چاہئے تھی لیکن مطالبہ کو ریاستی درجہ تک گھٹا کر ایک بڑ ادھچکہ دیا گیا جبکہ ووٹ ۳۷۰؍ کی بحالی کے نام پر مانگے گئے۔ انجینئر رشید جو ۱۴؍ اسمبلی حلقوں کے ووٹوں سے پارلیمانی رکن بن گئے لیکن صرف دو ماہ کے اندر اندر اسمبلی انتخابات میں محض ایک اسمبلی حلقہ سے کا میابی حاصل کرکے سمٹ گئے اس دعویٰ کے ساتھ مارکیٹ میں جلوہ گر ہوئے کہ عمرعبداللہ نے حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ سودا طے کیا ہے بالکل وہی دعویٰ جو انجینئر رشید کے بارے میں بی جے پی کا پراکسی کے حوالہ سے نیشنل کانفرنس کرتی رہی۔ انجینئر رشید نے اپنی مخالفت اور تنقید کے جذبے کو اسی حد تک محدودنہیں رکھابلکہ مرحوم شیخ محمدعبداللہ کی طرح اس نے بھی کشمیر یوں سے دغا کی۔ کیا واقعی مرحوم شیخ عبداللہ نے کشمیریوں سے دغا کی، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات کی جائیگی۔
حکمران جماعت بی جے پی نے کابینہ کی قرارداد کو سیاسی سٹنٹ قرار دیا اور کہا کہ جب وزیراعظم اور وزیر داخلہ پہلے ہی ریاستی درجہ کی بحالی کا وعدہ کرچکے ہیں اور اب تک انہوںنے جتنے بھی وعدے کئے انہیں پورا بھی کیا تو ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق قرار داد کاکوئی جواز نہیں۔کیا ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غداری کے مترادف ہے؟
کیا واقعی قرارداد پیش کرنے اور اتفاق رائے سے منظور کرنے کا اختیار کابینہ کو نہیں ، کیا کابینی ارکان سیڑھی کے پہلے زینہ کی حیثیت میں عوام کے منتخبہ نہیں یا وزارتی عہدہ سنبھالنے کے بعدا ن کی یہ عوامی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کا دائرہ تبدیل ہوکر صرف گورننس تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ یہ سبھی پارٹیاں کررہی ہیںاوران کے چنائو منشوروں میں بھی اس مطالبہ کو ترجیح حاصل ہے پھر عمر کی کابینہ نے پہلے قدم کے طور اگر اپنے چنائو منشور کی روشنی میں اس مانگ کا اعادہ کیا تو مخالفت کیوں؟ جس طرح ۳۷۰؍ترجیحات میں شامل ہے اُسی طرح ریاستی درجہ کی بحالی بھی، لیکن سیاسی دکانداری کا بھرم قائم رکھنے کیلئے تنقید اور مخالفت کا کوئی راستہ دستیاب رہنا چاہئے چنانچہ اسی زینے کا انتخاب عمل میںلایاگیا ۔ مخالفت کے تیر چلاتے وقت جو زبان، جو لہجہ اور جو دلیل پیش کی جارہی ہے اس کا بین السطور جائزہ لینے پر یہ عندیہ سامنے آجاتا ہے کہ ان پارٹیوں کو جموںوکشمیر میںسیاسی استحکام راس نہیں آرہا ہے ، وہ نہیں چاہتے کہ حکومت آرام سے عوامی مسائل کو ایڈریس کریں۔
دفعہ ۳۷۰ کی بحالی کی مانگ تو کی جاسکتی ہے لیکن قرارداد پاس کرکے اسے بحال نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ پی ڈی پی کا یہ فتویٰ کہ کابینہ نے ریاستی درجہ کی بحالی کی قرارداد پیش اور منظور کرکے دراصل ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے جس کا تعلق ریاست کے درجے کی تنزلی، دو حصوں میں تقسیم، اختیارات کی سلبی ،ا ٓئینی ضمانتوں کے خاتمہ وغیرہ اقدامات سے ہے اُس حکومتی فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
دُنیا کے کئی ایک خطے ایسے بھی مشاہدے میں ہیں جہاں کے سیاستدان سیاست کے نام پر خباثت، سیاسی جاہلیت اور سیاسی خود پسندی کے راستے پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ بضد بھی ہیں۔ کشمیر کا نئے سرے سے اُبھررہا سیاسی منظرنامہ اس سے مختلف نہیں۔ ہمارے سیاستدان زمینی حقائق کا نہ اعتراف کرتے نظرآرہے ہیں اور نہ ہی اپنی خو تبدیل کرنے پرآمادہ ہیں۔وہ اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں وہی ٹھیک ہے اور جو لوگ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس سوچ اور اس قماش کے سیاستدانوں کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ وہ سیاسی جاہل ہیں لوگوں کو اپنی تسخیر شدہ شئے اور بھیڑ بکریوں کا ریوڑ سمجھ رہے ہیں۔
ماضی کے کئی الیکشنوں میں جماعت اسلامی کے کاندھوں پر سواری کرکے الیکشن جیتنے کی خوگر پارٹی حالیہ اسمبلی الیکشن میں محض تین حلقوں تک سمٹ کے رہ گئی، انجینئر رشید نامعلوم خدا کی مخلوق کی غیبی حمایت اور آشیرواد کے بل بوتے پر ۱۴؍ اسمبلی حلقوں سے اپنے لئے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہوکر خودکو بادشاہ سمجھتے رہے لیکن صرف دوماہ کی قلیل مدت میں ۱۴؍ کا یہ ہندسہ۱؍تک سمٹ کررہ گیا، سجاد غنی لون مشکل سے اپنی جیت یقینی بناسکے، یہ لوگ اپنی ان حیثیتوں کا دیانتدارانہ تجزیہ نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے پہلے ہی دن سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرکے مرکز کے ساتھ اُلجھ جائے۔ یہی سوچ سیاسی جاہلیت کہلاتی ہے۔
پوچھا جاسکتا ہے کہ زائد از ۳۵؍ سال تک ٹکرائو کا راستہ اختیا رکرکے کشمیرنے سیاسی اور اقتصادی محاذوں پرکس خوشحالی اور سکون کو حاصل کیا؟،معاشرتی سطح پر کن خرابیوں کو دورکرکے صحت مند خطوط پر معاشرے کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیربنایا جاسکا؟ کتنے حراستی گمشدہ افراد کو زبازیاب کرایا جاسکا؟ کتنی بستیوں اور گھرانوں کو کھنڈرات میں تبدیل ہونے سے روکا جاسکا؟
ہم سیاستدانوں کی سیاست کے مخالف نہیں اور نہ ان کی تنقید کرکے ان کی دل آزاری میں کسی بھی حوالہ سے یقین رکھتے ہیں البتہ ان سب سے یہی ایک سوال ہے کہ وہ قدم روک کرخودسے استفسار کریں کہ کشمیر نے بغیر کسی پارٹی ، لیڈر یا فتویٰ کے ایک ہوکر ووٹ دیتے وقت کیوں اورکون سی وجوہات کے تناظرمیں ایک فیصلہ صادر کردیا اور سیاستدان اُس متفقہ فیصلہ کا احترام اور اعتراف کرنے کی بجائے عوام کو تصادم اور محاذ آرائی کیلئے اُکسانے کا راستہ اختیار کرتے نظرآرہے ہیں۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

پہلا چھوٹا قدم

Next Post

بابر اعظم کے خلاف گھٹیا ٹویٹ کرنے والے صحافی کو محمد عامر کا بھرپور جواب

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

بارشیں‘ نکاس آب کا مسئلہ اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ

2025-07-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-08
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-06
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

2025-07-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

امر ناتھ یاترا :سرکاری انتظامات اور مقامی مسلمانوں کے تعاون کا امتزاج

2025-07-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پی اے سی: کیا کشمیر میں اب بھی جذباتی نعروں کی گنجائش ہے ؟

2025-07-02
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-02
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-01
Next Post
بابر اعظم کے ون ڈے کرکٹ میں۴ ہزار رنز مکمل

بابر اعظم کے خلاف گھٹیا ٹویٹ کرنے والے صحافی کو محمد عامر کا بھرپور جواب

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.