سالہاسال کے صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر صدر راج کو ہٹالیاگیا اور حالیہ الیکشن کے بعدمنتخب اسمبلی کے وجود میں آنے اور متوقع طور سے اگلی حکومت کی تشکیل کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔بلاشبہ یہ آئین اور جمہویت کی جیت ہے لیکن اس جیت سے کہیں آگے یہ عوام کی جیت ہے جنہوںنے اپنے تمام تر ازموں، خواہشات اور مصلحتوں کو حاشیہ پر رکھ کر بیلٹ بکس پر اپنے غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اعادہ کیا۔
یہ تصویر کا ایک پہلو ہے جو بلاشبہ تابناک قرار دیا جاسکتا ہے لیکن تصویر کے دوسرے رُخ پر گہری دھند اور گھٹن کے بادل آہستہ آہستہ سایہ فگن ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی کے کچھ حلقوں کو الیکشن کے تنائج ہضم نہیں ہوتے اور وہ اپنی اس بدہضمی کا مختلف طریقوں سے اظہار بھی کررہے ہیں آبادی کے یہ کچھ حلقے جنہیں بادی النظر میں الیکشن نتائج ہضم نہیں ہوپارہے ہیں کچھ ایسی تنظیموں کے نام پر اپنی اس بدضمنی کو کچھ اس طریقے سے زبان دے رہے ہیں کہ گویا کشمیر نے فیڈرل ازم ، آئین کی بالادستی اور مختلف طبقوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور جموں خطے، اس کے عوام، جموںکے لوگوں کی سیاسی خواہشات ، ترقیات میںمساوی حصہ داری، زبان، ثقافت اور تہذیب وغیرہ سب کچھ پر ڈاکے ڈال کر اور چھین کر اپنی جھولی میں ڈالدیا ہے۔
چنانچہ اس بدبختانہ نظریے سے عبارت معاملہ کو مختلف طریقوں سے اُچھالا جارہاہے اور اب اس نئے اُبھررہے سیاسی تناظرمیں جموں کی جموںوکشمیر سے علیحدگی ، جموں پر مشتمل علیحدہ ریاست کے ساتھ ساتھ گوجر اور بکروالوں کے نام پر اُن چند حلقوں کے نتائج کو کالعدم قراردیئے جانے ایسے مطالبات سامنے لائے جارہے ہیں جن کی بُنیادی اصل اور نوعیت فتنہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ان نئے نعروں کے پیچھے جو لوگ اور کردار ہیں ان کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ ان کی حیثیت فرج عنصر سے زیادہ نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے طور سے میدان میں نہیں اُترے بلکہ وہ کچھ عنصر ان کی سرپرستی کررہے ہیں جن کی سیاست کی بُنیاد ہی فتنہ پر وری، فساد، شر، خون سے ہاتھ رنگنے اور عدم رواداری پر ہے۔
یہ خود ساختہ گروپ اب ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ تک کی مخالفت کررہے ہیں ۔ دلیل تو کسی بھی اعتبار سے وزن دار نہیں اور نہ ہی اُس میں کوئی منطق ہے لیکن چونکہ ایجنڈا فتنہ ، شر، فساد اور عدم رواداری کے ساتھ ساتھ کشمیر اور جموں کے درمیان سیاسی تقسیم کو شدت عطا کرکے اسے مستحکم کرنے کی ہے لہٰذا ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ، جو کانگریس ، نیشنل کانفرنس اتحاد ہی کی طرف سے نہیں ہورہی ہے بلکہ جموںوکشمیر کی آبادی کے ۹۹؍فیصد کی طرف سے تائید وحمایت کے ساتھ کی جارہی ہے یہاں تک کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ بھی اس تعلق سے عہد بند ہیں کی مخالفت کو بھی ان فرج عنصر نے اپنے ایجنڈا کے طور پیش کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کو وادی کشمیر اور جموں کے کچھ حلقوں سے انتخابی کامیابی ملی، اس کامیابی کے فوراً بعد دوخطوں کے درمیان سیاسی تقسیم کو اُبھرتے محسوس کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں اپنے اس اپروچ کو واضح کیا کہ اس سیاسی تقسیم کو پاٹا جائے گا اور کسی بھی حوالہ سے خطے کے عوام کے اندر محرومی کا ذرہ بھر بھی احساس اُبھرنے کا موقع نہیں دیاجائے گا، بلکہ تمام خطوں کی مساوی ترقی، لوگوں کی دیرینہ خواہشات کی تکمیل اور ثقافتی اور لسانی شناخت کے تحفظ اور آبیاری کے حوالہ سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس واضح اور دوٹوک اعلان کے باوجود یہ فرج عنصر اپنے فتنوں کے اظہار سے عبارت بیان بازی سے بازنہیں آرہے ہیں اور اپنے اپنے مشن اور ایجنڈا کی تکمیل کے لئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے مسلسل مطالبات کرتے جارہے ہیں ۔ اسی پر اکتفا نہیں ،کشمیر کے اندر سے بھی کچھ اسی ذہنیت کے شکست خوردہ عنصر مختلف بیان بازی کرکے فضا کو مکدر کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ پارلیمانی الیکشن میں ’حادثاتی فتح‘ کے نشے میں چور اور بدمست کچھ لوگ اپنے آپ کو خدا ،مسیحا اور بڑے قدآور لیڈر تصور کرنے لگے ہیںجبکہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں ان کی یہ حادثاتی جیت محض دو ماہ کی قلیل مدت کے دوران ہی زمین بوس ہوگئی اور مشکل سے ایک حلقے سے جیت حاصل کی جاسکتی ہے۔حالانکہ کشمیرمیں زائد از ۳۵؍سال کی طویل المدت کے دوران فساد، خون خرابہ اور بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے ان ذمہ داروں کے درمیان انتخابی گٹھ جوڑ بھی ہواتھا۔ لیکن لوگوںنے نہ صرف ان کے اس گٹھ جوڑ کو شکست دی بلکہ ان کی سیاست، ان کے نظریہ اور ان کی کشمیر میں ’ملازمانہ‘ حیثیت اور کردار کو بھی کشمیرنے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت قراردیا ہے۔ لیکن اس ہزیمت اور شکست کے باوجود وہ بیان بازی اور اُس بیان بازی میںپوشیدہ شر سے با زنہیں آرہے ہیں۔
جموں وکشمیر کے سینئر ترین سیاسی لیڈر ڈاکٹر کرن سنگھ، جنہوںنے ماضی میں جموں کی جموں وکشمیرسے علیحدگی اور جموں پر مشتمل الگ ریاست کی تشکیل کی تجویز پیش کی تھی، نے قطع نظراپنے اُس نظریہ کے ابھی چند روز قبل الیکشن نتائج کے تناظرمیں دو خطوں کے درمیان اس اُبھر رہے سیاسی تقسیم کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ’’اب میرے آبائو اجداد کی تشکیل خوبصورت ریاست ہم آہنگی اورہمہ گیر ترقی کے لئے نئے دور میں آگے بڑھے گی‘‘ لیکن کرن سنگھ کے آبائواجداد کی تشکیل اسی ریاست کے اب تک نہ صرف ٹکڑے ٹکڑے کئے جاتے رہے بلکہ ایک ٹکڑے پر چین، دوسرے پر پاکستان پھر بچی کھچی کو جموںوکشمیر اور لداخ کی تقسیم اور اب جموں کی کشمیر سے علیحدگی کے گھنائونے اور مکروہ سیاسی مصلحتوں کے مطیع بیانات اور نعروںپر ڈاکٹر کرن سنگھ خاموشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس ایجنڈا کو تقویت عطاکرنے والے عنصر جو کوئی بھی ہیں درپردہ سرحد پار کے آقائوں کی خدمت بجا لارہے ہیں، ان کے کشمیر ایجنڈا کی اپنی بے وقوفانہ اور احمقانہ حرکتوں سے آبیاری کررہے ہیں جبکہ پنجابیوں ، ہریانوی اور دوسروں کیلئے جموں کے دروازے کھلا چھوڑ کر ایک فلڈ کو دعوت دے رہے ہیں جو سیلاب جب بھی آئے گا جموں کی شناخت ، ثقافت،تہذیب اور وہ سب کچھ جن پر جموں کا ڈوگرہ ناز کررہا ہے اس کو تنکوں کی طرح بہا کرلے جائے گا۔
ان لوگوں کا ان کی اس مخصوص سوچ سے عبارت یہ ایجنڈا وقتی سیاسی مصلحتوں کی پیداوار ہے اس کو عملی روپ اگر دیا گیا تو اس کے ملک کی سالمیت جغرافیائی وحدت اور وہ سارے نظریات جن کی دہائی آئین میں موجود ہے سنگین خطرات سے خالی نہیں۔ ان کے بار ے میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ یہ عنصر عقل وفہم کے اندھے ہیں ،بے شعور ، جاہل اور شر پسند ہیں۔