کورپشن، بدعنوان طرزعمل ، حکومتی اداروں کی سرپرستی اور معاونت اور سب سے بڑھ کر آپسی لین دین، جو ملٹی کروڑ حدود سے تجاوز کرچکا ہے، نے ملک کے چپے چپے پر لوگوں کی صحت، سلامتی اور بقاء کو دائو پر ہی نہیں لگادیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور ہندوستان کی متعدد دوا ساز کمپنیوں کو اب بے اعتبار ، بددیانت اور عوام کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کا مرتکب قراردیاجارہاہے۔
سینٹرل ڈرگس سٹنڈارڈ آرگنائزیشن نے ابھی چند روز قبل ان دوا ساز کمپنیوں اور ان کے تیار کردہ مختلف ادویات کی ایک فہرست اجراء کی اور دعویٰ کیا کہ تجزیات کے بعد ان ادویات کو غیر موثر پایاگیا ہے۔ ان ادویات کی تیاری میں جو معیار مقرر ہے ان معیارات کی کسوٹی پر ان ادویات کو تجزیہ میں پورا اُترتا نہیں پایاگیا ۔ بحیثیت مجموعی ان ادویات کی تعداد ۵۳؍ کے قریب ہے جن میں انٹی بائیوٹکس، بچوں کے پیشاب ، گلے اور لنگس میں انفیکشن کے لئے تیار کی جارہی ادویات، بلڈ پریشر کے علاوہ کچھ ایسی دیگر ادویات بھی شامل ہیں جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ زندگی بخش ہیں یا مبتلا امراض کے حوالہ سے راحت بخش ہیں۔ متعلقہ ادارے کی جانب سے ہر مہینے ان ادویات کی فہرست جاری کی جارہی ہے جنہیں لیبارٹری تجزیہ پر غیر موثر اور غیر معیار ی پایا جارہا ہے ۔
ان تجزیوں کے حوالوں سے اب تک جو کمپنیاں اس بے ایمانی، بددیانتی او رلوٹ اور استحصال کی مرتکب پائی گئی ان میں وہ کمپنیاں خاص طور سے قابل ذکر ہیں جنہوںنے اپنی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے اور متعلقہ سرکاری ایجنسیوں کے چھاپوں سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے زائد از ایک ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری الیکٹورل بانڈ کی خریداری میں کی۔ اس خریدارای کا بڑا حصہ مرکز میں حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں جبکہ ریاستوں کی سطح پر برسراقتدار حکومتی جماعتوں کے حق میں چلاگیا ہے۔ ان دواسازکمپنیوں میں ہیڑو ڈرگس، الکم لیبارٹری ، ہندوستان انٹی بائیوٹیکس لمیٹڈ، کرناٹک انٹی بائیوٹیکس ، لائف میکس، سن فارما، گلین مارک، میک لارڈس فارما، ٹورینٹ اور چند دیگر چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیاں خاص طور سے قابل ذکرہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ سرمایہ کاری جو الیکٹورل بانڈ س کی وساطت سے کی جاتی رہی ہے ، ملک کی ۳۵ سرکردہ دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ہوئی۔ ان کمپنیوں کی طرف سے الیکٹورل بانڈس کی خریداری صرف غیر معیاری ادویات سازی کے ہی حوالہ سے نہیںکی جاتی رہی ہے بلکہ کمپنیوں کی جانب سے دیگر قوائد وضوابط کی خلاف ورزیوں، غیر صحت مند ماحول ، آلودہ پانی کا نکاس وغیرہ معاملات کے تعلق سے بھی کی جاتی رہی ہے۔
کمپنیوں کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیوں اور غیر معیاری ادویات کی تیاری سے فکر مند اور تشویش میں مبتلا ملک کے بعض سرکردہ اور ممتاز ماہرین ادویات اب اپنی آراء کو بار بار زبان دے کر تھک ہار کر شکست خوردہ حالات میں خود کو محسوس کررہے ہیں۔ ان کے مطابق نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور ہندوستان کی ادویات ساز کمپنیوں کو بے اعتبار اوربددیانت قرار دیا جارہا ہے بلکہ ملک کے اندر مریضوں پر نہ صرف بہت بڑا مالی بوجھ پڑھتا جارہا ہے بلکہ ان کے امراض میں بھی کوئی آفاقہ نہیں ہوپارہاہے۔
سینٹرل ڈرگس سٹنڈارڈ آگنائزیشن نے ان ادویات کا تجزیہ کرنے پر حاصل رپورٹوں کی روشنی میں متعلقہ دواساز کمپنیوں کے نام وجہ بتائو نوٹس اجرا کئے جن کے جواب میں کمپنیوں نے اس بات کاعتراف تو کیا ہے کہ بے شک یہ ادویات غیر معیاری ہیں لیکن یہ ادویات ان کی کمپنیوں میں تیار نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ وضاحت واقعی حیرت انگیز ہے ۔ سرکاری ادار ے نے یہ وضاحتیں موصول ہونے پر ان سے یہ استفسار نہیں کیا کہ اگر وہ تسلیم کررہی ہیں کہ یہ ادویات غیر معیاری ہیں لیکن ان کی تیاری میں ان کا ہاتھ نہیں ہے تو پھر مارکیٹ میں ان ادویات کو کون پہنچا رہا ہے، کون تقسیم کار ہے ، کون سٹاکسٹ ہے اور ڈاکٹروں کیلئے کیا یہ معلوم کرنا اور جاننا لازمی نہیں کہ جو ادویات وہ اپنے مریضوں کیلئے تجویز کرنے جارہے ہیں آیا وہ کس حد تک معیاری ہے اور مقررہ ضابطوں اور معیارات کے مطابق ہیں۔ آرگنائزیشن خاموش ہے ، پوچھا جاسکتا ہے کہ کیوں؟کیا یہ آرگنائزیشن بھی کمپنیوں کے نذرانوں کے بوجھ تلے دبی ہے یا کسی اور حلقے سے نازل ہدایات کی مطیع اور فرمانبرداری کا رول اداکررہی ہے۔
عوام کیلئے غیر معیاری ادویات اور ان سے پیداسنگین نوعیت کے مسائل ہی پریشانیوں اور ازیتوں کا موجب نہیں بلکہ آئے روز ان کی آسمان کو چھوتی جارہی قیمتوں کا بھی پریشان کن معاملہ درپیش ہے۔وہ کون سی دوا نہیں جس کی قیمت میں ہر دو ؍تین ماہ بعد اضافہ نہیں کیا جارہا ہے ۔ یہ اضافہ بھی کئی فیصد بحیثیت مجموعی کیاجارہا ہے۔ اس تعلق سے انٹی بائیوٹکس، انفیکشن ، سی او پی ڈی، امراض قلب، سرطان، اور دیگر انواع اقسام ادویات کا حوالہ موجود ہے جن کی قیمتوں میں ہر ۲، ۳ ماہ بعد اضافہ کیاجارہاہے۔ یہ اضافہ استحصال، عوام کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اُٹھانے اور لوٹ کے ہی زمروں میںشمار کیاجاسکتا ہے۔
سنجیدہ فکر اور حساس حلقوں کا یہی ماننا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں یہ مسلسل اضافہ کمپنیوں کی طرف سے الیکٹورل بانڈس کی خریداری میں سرمایہ کاری سے جڑاہوا ہے ، چونکہ ہر ریاست اور مرکز میں برسراقتدار جماعت اور ان سب کی اتحادی پارٹیاں اس بدعنوان طرزعمل کی بڑی حصہ دار ہیں اور شریک ہیں جبکہ معاونتی کردار بھی ادا کررہی ہیں لہٰذا بانڈس کی خریداری میں سرمایہ کاری کے عوض لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا راستہ اختیار کیاجارہاہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کو اچھی طرح سے علمیت ہے کہ کمپنیاں عوام کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر لوٹ میں ملوث ہیں لیکن اپنے معاونتی کردار اور سرپرستی کے پیش نظر خاموش ہیں اور قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔
اس سارے تناظرمیں کشمیرکا منظرنامہ ایک بار پھر قابل توجہ بن رہا ہے۔ یہ عام تاثر کہ ملک کی کم وبیش ہر ادویات ساز کمپنی کے نام پر نقلی اور غیر معیاری ادویات کی بھر مار کشمیر کے بازاروں میں مفادپرست ، ابن الوقت اور مافیاطرز کے بعض سٹاکسٹوں اورایجنٹوں کی وساطت سے ہی ممکن بن رہی ہے جبکہ اس مکروہ دھندہ میں مخصوص فکر اور ذہنیت کے ڈاکٹروں کی ٹولیاں بھی اپنا رول اداکررہی ہیں یہی وہ عمل ہے جس نے ۹۰ فیصد کشمیر کو مختلف امراض میں مبتلا کررکھا ہے ، ان کی آمدن کا ۹۰ فیصد حصہ انہی غیر معیاری اور غیر موثر ادویات کی خریداری میں چلا جاتا ہے، یہی وہ تشویش ہے جو سوالات کی صورت میں ملک کی بعض سرکردہ اور ماہرین ادویات مسلسل کررہے ہیںلیکن حکومتی سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے ۔ بہرحال اب معاملہ جو ڈیشری میں ہے، ہر ایک کی نگاہ اور توجہ اس مخصوص معاملے کے حوالہ سے جوڈیشری کی طرف مرکوز ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اب آگے آگے ہوتا ہے کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔