تحفظ اقتدار کی دوڑ ہو یا حصول اقتدار کی یہ انسان کوخود غرض، اندھا اور بہرہ بنادیتا ہے، کشمیر اور بحیثیت مجموعی کشمیریوں کی یہ تاریخی بدقسمتی رہی ہے جو آزادی کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے کہ اسے وہ سیاسی اور حکومتی قیادتیں ملی جن کی رگ وریشہ میں خود غرضی، ہوس، لالچ اور مادہ پرستی خون کی طرح دوڑ رہی ہے اور جن کا ظاہر اور باطن ،کردار اور فعل ہر اعتبار سے سیاسی بدعنوانیوں ، کورپشن، استحصال ،دھوکہ ، جعلسازی ، فریب اور ریاکاری سے عبارت رہا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیریوں کی اکثریت مزاج اور نفسیات کے لحاظ سے سادہ اورآنکھیں بند کرکے اپنے سامنے آنے والے پر بغیر سوال پوچھے بھروسہ کرنے کی خوگر ہے اور رہی بھی، ہر مکتب سیاست سے وابستگی رکھنے والے کے نعرے پر لبیک کہتے رہے یہ فرض کرکے کہ شاید یہی ان کیلئے انصاف کی راہیں ہموار کرے گا، اس کی معاشرتی ، معیشتی ، سیاسی ،مذہبی اور ثقافتی آرزوں اور چاہتوں کی تکمیل اور حصول کیلئے میدان میں اُترکر جہاد کرے گا، آنکھیں بند کرکے ہر اعلان، ہر نعرے اور ہر یقین دہانی پر اعتبار کیا ، یہاں تک کہ الہ کرے گا وانگن کرے گا کا نعرہ بلند بھی کیا اور اس پر والہانہ لبیک بھی کہی، قومی سطح کی برسراقتدار پارٹی کو جموں وکشمیر میں اقتدار سے دور رکھنے کیلئے میری پارٹی (پی ڈی پی ) کو ووٹ دو لیکن جب ووٹ ملا اور لوگوںنے نعرہ پر بھروسہ کیا لوگوںکے اُس بھروسہ پر کند چُھرا چلا کر اسی پارٹی کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر کشمیر پر نہ صرف مسلط کیا بلکہ اس کی محبت میں اس قدر اندھے پن اور جنونیت میںخود کو غرق کردیا کہ کشمیری نوجوانوں پر گولیوں اور پیلٹ کی برسات کے دفاع میں یہ فتویٰ جاری کردیا کہ یہ نوجوان گھروں سے مٹھائیاں اور دودھ خریدنے بازاروں میں نہیں نکلے تھے۔
آج کی تاریخ میں جب الیکشن مرحلہ سے گذررہے ہیں حصول اقتدار کی یہ دوڑ پہلے سے زیادہ اندھی ہوچکی ہے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نیشنل کانفرنس سے اپنی حکومت کی کارکردگی کا حساب مانگ رہی ہے اور اپنا حساب بھی جواب میں عوامی دربار میںپیش کرنے کی پیشکش کررہی ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں پر جموںوکشمیر کی تباہی وبربادی کا الزام لگارہی ہے، کم وبیش وہی الزامات عائد کررہی ہے جو نیشنل کانفرنس کے دوسرے سیاسی مخالفین عرصہ سے دہراتے رہے ہیں، اس تعلق سے ۱۹۸۷ء کے مبینہ فراڈ الیکشن کا حوالہ دے کر کہاجارہا ہے کہ اسی فراڈ کے بطن سے کشمیر میںشورش برپا ہوئی، عسکری تحریک نے جنم لیا جوخون خرابہ پر منتج ہوئی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ۱۹۸۷ء کے الیکشن میںدھاندلیاں ہوئی لیکن یہ کہنا کہ یہی ایک وجہ تھی کہ جس نے عسکریت کو جنم دیا غلط اور گمراہ کن دعویٰ ہے۔اس زمینی حقیقت کو نظرا نداز کیا جارہاہے کہ الفتح نامی عسکری تنظیم کے علاوہ کئی دوسری روپوش تنظیمیں بھی ۱۹۸۷ء سے پہلے ہی وجود میں آئی تھی باالخصوص اُس ادوارمیں جب کانگریس کی سرپرستی میں جموں وکشمیرمیں اُس کی کٹ پتلی سرکاریں برسراقتدار تھی۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ۱۹۵۲ء کے واقعات نے یکطرفہ ، غیر جمہوری، غیر آئینی اورفراڈ الیکشنوں کی ہی بُنیاد نہیں ڈالی بلکہ اندھی سیاسی مصلحتوں کے ساتھ ساتھ سازشانہ کردار کے حامل بعض سیاستدان اپنے دہلی کے مخصوص آقائوں کی خوشنودی اور چاپلوسی کو اپنا ایمان قراردے کر اقتدار حاصل کرتے رہے اور غنڈہ گردی کے ایک نہ ختم ہونے والے دوراور جبر وقہر کو عوام پر نازل کرتے رہے۔ ان مخصوص سیاسی کرداروںمیں لال بھگوان کا ایک بھگت بھی خاص کرداراداکرتارہا۔ وہ کردار جب مرکزی وزارت داخلہ کے منصب پر جلوہ گر ہواتو اپنی کرسی کے لئے ’’بات بنے گی گولی سے ‘‘ کا نصب العین قراردیا یہاں تک کہ حول میں میر واعظ کشمیر کے جسد خاکی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ریاستی سطح کا اقتدار حاصل کرنے پر اس نعرہ کی ہیت یہ کہکر کہ’’ گولی سے نہیں بات بنے گی بولی سے ‘‘ تبدیل کردیا گیا۔یہ سارا ماضی تلخیوں، ازیتوں، ریاکاریوں اورسیاسی جعلسازیوں سے عبارت گذرا اور ان سب کانشانہ کشمیر کی آبادی بنتی رہی۔
کچھ وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ اب کی بار لوگ محبوبہ مفتی ، عمرعبداللہ ، انجینئر رشید اور دوسرے کئی لوگوں کی تقریروں، بیانات، دعوئوں اور فتوئوں سے کس حد تک متاثر ہوکر کس کے دامن کو اپنے اعتماد (ووٹ) سے گلزار بنائیں گے، یہ ان کے فیصلوں اور صوابدید پر منحصر ہے ، لیکن بار بار یہی سوال زبان پر آرہا ہے ، جب سے الیکشن کا بگل بجادیاگیا اور اس سے قبل بھی کہ کیا کشمیراور کشمیری کے وسیع ترمفادات، حال اور مستقبل کے تحفظ، صحت، بقاء اور سلامتی کی خاطر کشمیر کی سیاسی اُفق پر جو بھی پارٹیاں اور سیاستدان جلوہ گر ہیں کیوں ایک پلیٹ پر اکٹھا نہیں ہوسکتے، کشمیرکے مفادات کے حوالہ سے ایک متفقہ نریٹو ترتیب نہیں دے سکتے اور اپنی اپنی انانیت کے اندھے گھوڑوں کی سواری کیوں ترک نہیںکرسکتے، لیکن بدقسمتی سے ایک بھی سیاستدان اس مخصوص فکر اور مشن کے ساتھ میدان میںنہیں ہے البتہ عوام کے سامنے جلسوں میں ان کی زبانوں پر یہ گانا ضرور سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ساری سمو اَکسیِ رَز لمو ،تیلہ ما رائوہے کہن گائو‘‘یہ محض اتفاق ہے یا علم دار کشمیرـؒ کا وژن تھا کہ چھ سوسال قبل اُس عظیم ہستی نے آج کے اس کشمیرکی تصویر اور منظر کشی کررکھی تھی۔ لیکن آج کے سیاستدان بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ریاکاری کے تمام تر حدود پھلانگتے ہوئے کشمیر کی اس عظیم ہستی کے اس کلام کو اپنے جلسوں میںزبان دے کر خود کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں۔
بہرحال ۸۷ء کے فراڈ الیکشن کو عسکریت اور علیحدگی کی بُنیاد قراردینے والے سیاستدان آج الیکشن کے رواں مرحلہ کے حوالہ سے خود کیا رول اور کردار اداکررہے ہیں۔ ۸۷ء میںاین سی کو اتحادی کانگریس کی حکومتی اور پارٹی آشیرواد حاصل تھی اور آج ۸۷ء کے بطن سے جنم پانے والے بعض کرداروں کی الیکشن کی آڑ میں واپسی کی حمایت اور والہانہ خیر مقدم کرکے بڑے پیمانے پر ان کی وکالت کی جارہی ہے۔اس حوالہ سے پی ڈی پی ، انجینئر رشید ، الطاف بخاری اور سجاد غنی لون پیش پیش ہیں۔ دبے لفظوں میں رائے شماری کا بھی نعرہ بحال کیاجارہاہے ، کشمیر اشو کو بھی زبان دی جارہی ہے، پاکستان کی وکالت بھی کی جارہی ہے اور بقول پی ڈی پی کے ایک لیڈر کے ہم نے ہمیشہ جماعت اسلامی کی حمایت کی ہے اور الیکشن کے بعد ان کے ساتھ ہاتھ ملانے میں بھی کوئی حرج نہیں قراردیا ہے۔ پارٹی پر ٹیرر فنڈنگ کی پاداش میں عائد پابندی کو بھی اُٹھانے کی مانگ کی جارہی ہے۔ برعکس اس کے حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی پی ہمیشہ جماعت کے کاندھوں پر بیٹھ کر ہی الیکشن میدان مارتی رہی ہے۔
یہ بات بھی غور طلب اور توجہ طلب ہے کہ ممنوعہ پارٹی سے وابستہ ایک لیڈر جو ترجمان بن کر بیانات دے رہا ہے نے ابھی چند روز قبل یہ اعتراف کیا کہ ان کی جماعت نے دہلی کے ساتھ بات کی، معاملات طے کئے، یقین دہانیاں حاصل کیں اوراس کے بعد آزاد اُمیدواروں کو میدان میںاُتاردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر پابندی ہٹائی گئی ہوتی تو ان کی جماعت سبھی ۹۰؍ حلقوں سے اپنے اُمیدوار کھڑا کرتی۔ نیشنل کانفرنس اور ا س کے حال ہی دو منتخب ممبران پارلیمنٹ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوںنے پارلیمنٹ میں جماعت پر پابندی اُٹھانے کی مانگ نہیں کی۔
ان سبھی پہلوئوں پر بات کرنے کا مدعا ومقصد یہ ہے کہ اس امر کو عوام کے گوش گزار کیا جائے کہ کشمیراور کشمیری عوام کا کوئی ہمدرد نہیں، کوئی محسن نہیں، کوئی مخلص نہیں، انہیں کشمیر کے نام پر صرف اقتدار چاہئے جس کے حصول کیلئے یہ ہمہ وقت سوداگروں کے روپ میں ٹوہ میں رہتے ہیں۔ کشمیرکی معاشی، سیاسی ،ثقافتی ،تہذیبی ،لسانی اور معاشرتی تباہی کے یہی کردار براہ راست ذمہ دار ہیں۔ باقی دکھائوے کے نعرے ہیں جو اب کوئی معنی نہیں رکھتے اور نہ ہی ان نعروں کو بلند کرکے کشمیر کے منفرد تشخص ، معیشت، عزت نفس اور وقار ہی بحال ہوسکتا ہے۔