جموںوکشمیر کی تاریخی حوالہ سے دفعہ ۳۷۰ جس کو کالعدم ہوئے اب پانچ سال ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہ صرف جموںوکشمیر کی جغرافیائی حدود کے اندر بحث وتکرار کا موضع ہے بلکہ ہندوستان اور سرحد کے اُس پار پاکستان میں بھی موضوع بحث ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی اس کی منسوخی کو اپنی تاریخی فتح اور زبردست سیاسی کارنامہ کے طور اپنی دکانیں سجا کر سودا سلف کی مانند فروخت کررہا ہے تو کوئی اس کی منسوخی کو کشمیر کی منفرد تشخص، ثقافت اور سیاسی خواہشات کو دفن کرنے کے مترادف قرار دے رہا ہے البتہ سرحد کے اُس پار پاکستان کے سیاستدان اور کچھ دوسرے، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ اس مخصوص آئینی شق میں کشمیر کے حوالہ سے کیا کچھ تھا اور جموں وکشمیرکا ہند یونین کے ساتھ تعلق اور آئینی رشتے کے تناظرمیں اس دفعہ کی حیثیت اور ہیت ترکیبی کن عناصر پر مبنی تھی، بھی اس دفعہ کو لے کر اپنی بھرپور بے ہودہ سوچ اور مرگی زدہ اپروچ اور دعویٰ کرکے رقصاں ہیں۔
عمران خا ن کے دور کے مُلا ذہنیت کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا وہ بیان آج کی تاریخ میں بھی ریکارڈ پر ہے جب اس دفعہ کو کالعدم قرار دیاگیاتھا، شاہ محمود قریشی نے اس دفعہ کی منسوخی کے فوراً بعد ایک بیان دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ حکومت ہند اپنے اس فیصلے کو واپس لے اور کشمیر کے حوالہ سے جوں کا توں پوزیشن بحال کرے۔ پاکستان کے کئی ایک سیاسی حلقوں نے قریشی کے اس بیان کو بچگانہ قرار دے کر یہ ردعمل ظاہر کیا کہ کشمیر پر پاکستان کا جو موقف رہا ہے قریشی کے بیان سے لگتا ہے کہ پاکستان اُس ’اصولی ‘موقف سے دستبردار ہوگیا ہے۔
اور اب موجودہ ’ن‘ لیگی قیادت میں حکومت کے وزیردفاع خواجہ آصف نے جموںوکشمیر میں جاری اسمبلی الیکشن کے تناظرمیں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد اور دفعہ ۳۷۰ سمیت دیگر معاملات کو لے کر یہ فتویٰ صادر کیا کہ اس معاملے میں پاکستان ، نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کے حوالہ سے ایک پیج پر ہے۔اگر کوئی سیاستدان کسی معاملے پر بیان دیتے وقت اپنے بیان کے مضمرات ، منفی یا مثبت اثرات کا فہم اور ادراک نہ رکھتا ہو اور بس بیان برائے بیان کا راستہ اختیار کرنے کا خوگر ہو اُس سیاستدان کے بارے میں یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ سیاسی مکتب کا طفل ہے، شعور اور لاشعور سے مبرا اہے، اس کی سوچ، انداز فکر، طرزعمل اور اپروچ سراسر بے ہوگی اور آوارہ گردی سے عبارت ہے، جبکہ بحیثیت مجموعی وہ سیاستدان کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ اس سوچ کی حامل شخصیت کو یاتو کسی عجائب گھر کی زینت بنایا جاناچاہئے یا کسی وائلڈ لائف میںزندگی گذارنے کیلئے چھوڑ دیا جانا چاہئے۔
ابھی خواجہ آصف کے بیان کی صدا آہی رہی تھی کہ حکمران جماعت بی جے پی سے وابستہ ہر کسی عہدیدار اور سیاسی کارکن نے اپنے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ میدان میں کود کر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کو زبردست نشانہ بنایا جو سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ کہاگیا کہ آصف کے اس بیان سے ہندوستان باالخصوص جموں وکشمیر کے تعلق سے بلی تھیلے سے باہر آہی گئی جبکہ آصف کے اس بیہودہ اور آوارہ گرد سیاسی سوچ کے مظہر بیان سے حکمران جماعت کو ایک ایسا ہتھیار ہاتھ لگا جس کی اُس نے تصور بھی نہ کیا ہوتا۔ نیشنل کانفرنس کو پاکستان نواز اور کانگریس کو ملکی آئین وقانون کے تابع نہیں بلکہ جناح کی سیاست اور نظریہ کے مطابق ملک کو چلانے کا نریٹو اختیار کرلیاگیا۔
حکمران جماعت کی طرف سے اس شدید یلغار کی شدت کو اپنے اوپر حاوی ہوتے اور مختلف نزاعی معاملات کے تعلق سے خودکو تکلیف اور نقصان سے دو چار محسوس کرتے ہوئے کانگریس نے بھی میدان میں آکر جو ابی حملہ بول دیا اور وزیر اعظم کا نام لے کر جہاں سرحد پار بغیر کسی دعوت کے بریانی کھانے اور پاکستان کے کسی انٹیلی جنس گروپ کو ایک مخصوص اشو پر مشترکہ تحقیقات کے لئے مدعو کرنے کے وزیراعظم کے فیصلے اور اقدام کو ملکی سکیورٹی کے ساتھ مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ درحقیقت حکمران جماعت پاکستان کے ساتھ ساز باز کرکے کئی معاملات میں ایک پیج پر کھڑے ہیں۔
کانگریس بی جے پی پر نشانہ سادھے یا بی جے پی کانگریس کو لتاڑ تی رہے کشمیر کا اس کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں قومی پارٹیاں بھر پور علمیت رکھتی ہیں کہ جموںوکشمیر کے تعلق سے ان کی حیثیت اور مقام کیا ہے ۔ لیکن کشمیرکی بدقسمتیوں میں سے ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان، پاکستان کے ادارے، پاکستان میڈیا کا ایک مخصوص فکر کا حصہ کشمیر کو اپنا fifdomتصور کررہاہے، ان کی فکر یہ ہے کہ اپنے ملک میں بیٹھ کر وہ کشمیر کے حوالہ سے جو کچھ بھی نریٹو سامنے لاتے رہینگے وہ کشمیر قبول کرتا رہے گا، اس مخصوص سوچ کے پیچھے یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ یہ سارے لوگ اور ادارے یہ فرض کر بیٹھے ہیں کہ وہ کشمیر کے ترجمان ہیں معتبر اور مستند نمائندے ہیں لہٰذا کشمیرکے تعلق سے ان کی بات اقدامات اور فیصلے حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی پاکستان کی سیاست، سٹیٹ اور اداروں کے طرزعمل کا بہت بڑا المیہ رہا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ المیہ بھی انہی کا ہے کہ وہ اس خودساختہ سوچ کے خول سے باہر آنے کیلئے تیار نہیں۔
خواجہ آصف کے مذکورہ ایک پیج والے بیان سے کانگریس اورنیشنل کانفرنس دونوں کو کافی نقصان سے دو چار ہونے کا اندیشہ ہے، کیونکہ ان کا اتحاد اب تک اپنی رفتار کے ساتھ پیشقدمی کرتا محسوس ہورہا تھا جبکہ جموں خطے کے تعلق سے بھی اس اتحاد کو بہت حد تک پذیرائی مل رہی تھی لیکن خواجہ آصف کے مرگی زدہ بیان اور بے پر کیوں نے اس اتحاد کو بادی النظرمیں نقصان پہنچایا ہے وہیں جموں کے ووٹروں کو اپنے ووٹ کے بارے میں ازسرنو سوچنے کی تحریک ملی بلکہ مل گئی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستا ن میں کہیں کسی حصے میں کچھ پاگل کتے موجود ہیں جن میں سے ایک نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد اُس دور کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو کاٹ کھایا اور اب کوئی دوسرا کتا کہیں سے نمودار ہوکر موجود ہ وزیرخارجہ آصف پر حملہ آور ہوا اور اس کو کاٹ کھایا۔ کیا ان دونوں پاکستانی سیاست کاروں کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے اپنے پیج کو بلوچستان کے عوام کے ساتھ ان کے حال اور مستقبل کی خاطر نتھی کریں اور اس طرح ان کے سلب شدہ انسانی ، سیاسی، تمدنی اور ثقافتی شناخت کا تحفظ یقینی بناکر اس صوبے کی آبادی کو صحت، عزت وآبرو ، سلامتی اور بقاء کی ضمانتوں کے ساتھ ان کا کھویا اعتماد بحال کریں۔
پاکستان کے معاشی، فی الوقت عرصہ سے جاری آئینی اور انتظامی بحرانوں پرقابو پانے کیلئے جیلوںمیں نظربند اور جیلوں سے باہر سبھی سیاستدان پاکستان کے حال اور مستقبل کیلئے ایک پیج پر کھڑ ا ہونے کی کوشش کریں بجائے اس کے کہ مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کا مکروہ اور مذموم راستہ ترک کریں۔
کشمیر کسی بھی عنصر یا کسی بھی طاقتور کی جاگیر ہے اور نہ اس کے عوام ان کے غلام ۔ کشمیری عوام اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کا دُشمن کون ہے، خیر خواہ کون ہے ، محسن کون ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ وہ فی الحال ان کی گنتی نہیں کررہے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے اپنے صفوں میں کن کے سیاسی اور غیر سیاسی آلہ کار بطور مہروں کے گھس چکے ہیں اور وہ کشمیر کے وسیع ترمفادات کے ساتھ کیا کچھ کھیل کھیل رہے ہیں۔ایسے آلہ کار اور مہرے بے نقاب ہوچکے ہیں، کچھ ایک بے نقاب ہونے کی دہلیز پر دستک دے رہے ہیں۔ وقت کا انتظار ہے۔