منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

انجینئر وہ سچ بتائے جو سچ وہ جانتے ہیں

جو سوال اُٹھائے جارہے ہیں ان کا جواب بھی ناگزیر ہے

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-09-14
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

عجیب اتفاق ہے، انجینئر رشید نے ضمانت پر جیل سے رہائی پر اپنے ردعمل میں اعلان کیا کہ ’’ہماری آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا کیونکہ سچ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ مرحوم شیخ محمدعبداللہ نے طویل نظربندی کے بعد رہا ہونے پر اعلان کیا تھا کہ ’’ کسی کے آگے نہ خم ہوسکی میری گردن‘‘ ۔ پھر زمانے نے جودیکھا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اب شیخ رشید کے اعلان کے تناظرمیں زمانہ کیا دیکھنے جارہاہے اس کا فی الحال انتظار رہے گا۔ بہرحال یہ بحث پھر کبھی۔
فی الحال الیکشن کے تناظرمیں انجینئر رشید ایک اہم کردار اور مرکز کے طور اُبھر رہے ہیں ۔ پہلے پہل ابتدائی ردعمل میں کشمیرنشین کم وبیش سبھی جماعتوں اور لیڈروں نے انجینئر رشید کی الیکشن میدان میں شرکت کا خیر مقدم کیا بلکہ پارلیمنٹ کے لئے کامیابی حاصل کرنے کا بھی نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ ان کی رہائی کا بھی مطالبہ سامنے آیا۔ لیکن سیاسی پارٹیوںکے اس خیر مقدمی ردعمل کا منہ اچانک کسی اور جانب مڑتا گیا اور شدت کے ساتھ مخالفت اور تنقید میںآوازیں بلندہونا شروع ہوگئی۔ نہ صرف نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بلکہ کچھ دوسروں نے بھی رشیخ رشید کو حکمران جماعت بی جے پی کا پراکسی قراردیا، محبوبہ سوال کرتی رہی کہ سالہاسال سے وہ اور ان کے والد مرحوم سیاست میں رہے اور پارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا لیکن ہمارے اتنے وسائل نہیں کہ ہم سبھی حلقوں سے اپنے اُمیدوار کھڑے کرسکیں۔ انجینئر رشید کے پاس اچانک اتنے وسائل کہاں سے دستیاب ہوئے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے سالہاسال تک رہتے یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے پارلیمنٹ چنائو اور اب اسمبلی چنائو میںپارٹی کی بڑے پیمانے پر اُمیدواروں کی نامزدگی، جلسے جلوس، ٹرانسپورٹ ، جھنڈوں اور بینروں کی تیاری وغیرہ سہولیات کیلئے سرمایہ کہاں سے آرہا ہے۔
انجینئر رشید پر بی جے پی کی پراکسی کا الزام اس قدر شدید اور شدت اختیار کرگیا کہ حکمران جماعت سے وابستہ ایک لیڈر انوراگ ٹھاکر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انجینئر رشید کا بی جے پی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ بھی کہاکہ جو لوگ ایسا دعویٰ کررہے ہیں درحقیقت انہیں اپنی ہار سامنے دکھائی دے رہی ہے۔ ا سی دوران سوشل میڈیا پر بی جے پی کے پردیش صدر رویندر رینہ کے دستخطوں سے ایک بیان وائرل ہوا جس میں کشمیرمیں پارٹی سے وابستہ کارکنوں اور حامیوں کو حکم دیاگیا کہ وہ انجینئر رشید کے استقبال میں شرکت کریں لیکن چند ہی منٹوں کے دوران رویندر رینہ سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ان سے منسوب پہلا بیان حقائق پر مبنی نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اس بیان کو شرارت اور شرانگیز قراردیاگیا۔
کشمیرنشین سیاسی پارٹیوں اور شخصیتوں میںسے واحد سجاد غنی لون ہیں جوا نجینئر رشید کا ہی نہیں بلکہ الیکشن میں ممنوعہ جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی شرکت کا دفاع کررہے ہیں اور واضح کیا کہ کشمیرمیں یہ روایت عام ہے کہ یہاں کسی پر بھی لیبل چسپاں کی جاتی ہے۔ انجینئر رشید کے ساتھ بھی یہی کیا جارہا ہے کہ وہ بی جے پی کا پراکسی ہے۔
کیا واقعی انجینئر رشید بی جے پی کا پراکسی ہے؟ یہ سوال عوامی اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ بہت کچھ کہاجارہاہے ۔ یہ بھی زیر بحث ہے کہ اگر ٹیرر فنڈنگ معاملات میں انجینئر رشید سمیت کئی بلکہ بہت سار ے سالہاسال سے جیلوں کی زندگی کاٹ رہے ہیں، انجینئر کو ضمانت پر رہائی کا اہل اور مستحق قراردیا گیا ہے تو دوسرے نظربند کیوںنہیں؟ خود انجینئر رشید کاکہناہے کہ وہ کسی کا پراکسی نہیںہے بلکہ وزیراعظم کا نام لے کر ان کی قیادت میں حکومت کی جانب سے ریاست کا درجہ ختم کرکے یوٹی بنانے، آئینی ضمانتوں اور تحفظات کو ختم کرنے اور دوسرے کئی اقدامات کے حوالہ سے زبردست تنقید کی۔
لیکن ابھی ان سارے دعویٰ، الزامات اور جوابات کی صدائے باز گشت ہر سو سنائی ہی دے رہی تھی کہ شمالی کشمیرسے حال ہی تشکیل ایک نئی پارٹی کے سربراہ میر جنید کا ایک طویل تقریباً دس منٹ پر محیط بیان سامنے آیا جس میں وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انجینئر رشید واقعی بی جے پی کا پراکسی ہے، وہ وزیراعظم نریندرمودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کے ساتھ معاملات (سودا) کرکے آیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کئی پارٹیاں بی جے پی کی اے، بی ، سی ٹیموں کی حیثیت رکھتی ہیں، ’’میں وثوق سے کہتا ہوں کہ انجینئر رشید بی جے پی کا اے پلس اے ٹیم کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ انجینئر کے وسائل کے بارے میں بھی میر جنید نے محبوبہ مفتی کی ہی طرح کئی سوال کئے ہیں۔
میر جنید کون ہیں اس بارے میں کشمیر میں عوامی سطح پر بہت محدود معلومات؍جانکاری ہے۔ وہ کئی برسوں سے کشمیر کے حوالہ سے سفارتی محاذ پر سرگرم اور مصروف ہے۔ جنیوا اور دوسرے کئی ممالک میںہندوستان کے موقف اور نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے کشمیرکے معاملات میںپاکستان کی درپردہ جنگ ، دراندازی، دہشت گردی کی معاونت اور دوسرے اشوز کے حوالہ سے معاملات پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ دہلی اور کشمیر ایڈمنسٹریشن کے بہت قریب سمجھے جارہے ہیں۔ اُن کی اس حیثیت کے تناظرمیں انجینئر رشید کے حکمران جماعت بی جے پی کا پراکسی ہونے کے الزام یا دعویٰ کوہلکے میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔ خاص کر میر جنید کا یہ استدلال کہ انجینئر رشید نے پارلیمانی الیکشن میںجو پانچ لاکھ ووٹ حاصل کئے ان کا سودا وہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ کرکے آئے ہیں۔
بہت بڑا اسوال یہی ہے کہ کون سچ بول رہا ہے، کون جھوٹ کاسہارا لے رہا ہے، کون عوام کے جذبات اور احساسات کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کیلئے ایک نئے بہروپیہ کے طور جلو ہ گر ہورہاہے، کون مگر مچھ کے آنسو بہا کر لوگوں کو اپنے خلوص اور ان کا ہمدرد اور محسن ہونے کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کررہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ الیکشن اورجمہوریت کا جشن نہیں بلکہ الیکشن اور جشن جمہوریت کے نام پر کشمیرکی ایک نئی طرح کی سیاسی اور معاشرتی تباہی اور بربادی کا سکرپٹ لکھا جارہاہے۔کوئی یہ مضحکہ خیز بیان دے رہاہے کہ یہ الیکشن ’’سیکولر کشمیر‘‘ کا پہلا الیکشن ہے، یہ مضحکہ خیز اور بھونڈا بیان داغنے والے سے ایک مختصر سوال تو یہی کیاجاسکتا ہے کہ وہ بتائے کہ کشمیرکب سیکولر نہیں تھا؟
کشمیر تو اُسوقت سب سے بڑا سیکولر اورسیکولرازم کے حوالہ سے علمبرار تھا جب تقسیم کے وقت سرحد کے آر پار قتل وغارت ، آتشزنی، عصمت دریوں اور لوٹ مار اور جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کے جنون میںسارا برصغیر جل رہا تھا، یہ صرف کشمیرتھا جس کے سیکولر کردارکو دیکھ کر ہی گاندھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ انہیں صرف کشمیر سے اُمید کی کرن دکھائی دے رہی تھی حالانکہ کشمیر کے ایک حصے جموںمیں قتل عام جاری تھا اور اس کے دریائوں اورندی نالوں کا پانی کئی روز تک سرخ رہا اور لاشیں بھی بہتی رہی۔
بہرحال یہ انجینئر رشید کی ذاتی، انفرادی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بارے میں عوام کے سامنے وہ سچ لائے جو سچ وہ جانتے ہیں ، جس سچ کی انہیںعلمیت ہے اور جس سچ کو وہ عزیز اور مقدم سمجھتے ہیں اور وہ سچ جو ان کے اپنے سینے میں ہے۔
۔۔۔۔۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

اگرعمر اور محبوبہ تو انجینئر کیوں نہیں ؟

Next Post

جنوبی افریقہ سے ون ڈے سیریز،افغان ٹیم میں راشد خان کی واپسی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
جنوبی افریقی بیٹر نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کی پہلی سنچری بنالی

جنوبی افریقہ سے ون ڈے سیریز،افغان ٹیم میں راشد خان کی واپسی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.