نئی دہلی// سپریم کورٹ نے کولکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اور اسپتال میں 9 اگست کو پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کی مبینہ عصمت دری اور قتل کے کیس میں از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور الیکٹرانکس پر متاثرہ لڑکی کی تصویر لگانے کے عمل کی تنقید کرتے ہوئے عدالت نے پیر کو موجود تمام تصاویر کو فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت دی ہے ۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے ریاستی حکومت اور مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی )کی طرف سے پیش کردہ تحقیقاتی پیش رفت کے بیان پر غور کرنے کے بعد یہ حکم دیا۔ متوفی کے وقار اور رازداری کے تحفظ کے پیش نظر بنچ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک میڈیا سے اس کی تصاویر ہٹائے ۔
بنچ نے اس واقعہ کے سلسلے میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو موصول ہونے والی کچھ لیڈز کا بھی نوٹس لیا اور 16 ستمبر تک مرکزی تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے کی گئی تحقیقاتی پیش رفت کا مزید بیان طلب کیا۔
بنچ نے تحقیقات کی پیش رفت کی تفصیلات دیکھنے کے بعد کہا "ایک بات بالکل واضح ہے کہ کولکتہ پولیس نے عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے میں کم از کم 14 گھنٹے کی تاخیر کی ہے ۔ اس کے علاوہ دو باتیں اور ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ وقت جب متاثرہ لڑکی آرام کرنے کے لیے سیمینار ہال گئی تھی اور دوسری بات یہ کہ اس کے بعد اس کمرے میں کیا حرکتیں ہوئیں ۔
سپریم کورٹ نے ریاستی پولیس کے حلف نامہ کا بھی نوٹس لیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست مغربی بنگال نے اضافی سی سی ٹی وی کے لیے فنڈز کی منظوری دی ہے ۔ بنچ نے کہا کہ اس پر مسلسل نظر رکھی جائے گی۔
پچھلے مہینے سپریم کورٹ نے 31 سالہ ایک ٹرینی پی جی ڈاکٹر کے ساتھ پیش آنے والے ظالمانہ اور ہولناک واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
عدالت نے ریاستی حکومت کے آر جی کر کالج اینڈ ہاسپٹل کے اس وقت کے پرنسپل کا تبادلہ کرنے اور ان کی دوسرے کالج میں تقرری کرنے کے اقدام پر بھی سوال اٹھائے تھے جب اس واقعے کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ پھیل گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس کیس کی اگلی سماعت کے لیے 17 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے ۔