مذہبی عقیدوں ،سیاسی مصلحتوں یا کسی اور حوالہ سے کسی بھی نظریے سے بالا تر نشہ مکت سماج کی تشکیل ، نشو ونما اور قیام نہ صرف انفرادی سطح پر ترقی، فلاح اور سلامتی کیلئے ناگزیر ہے بلکہ بحیثیت مجموعی سٹیٹ کی بقاء اور جغرافیائی سالمیت اور وحدت کیلئے بھی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
جموں وکشمیر گذشتہ کچھ برسوں سے منشیات کی سمگلنگ، خرید وفروخت اور استعمال کی آماجگاہ کے طور اُبھر رہا ہے ، کبھی کسی زمانے میں اس سے یہی ملتی جلتی صورتحال پنجاب کے حوالہ سے مشاہد ہ میں تھی جس کے نتیجہ میں پنجاب کو ’اُڑتا پنجاب‘ کا ایک نیا نام عطا ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے کسی اندیکھے منصوبے، سیاسی حکمت عملی اور اہداف کی تکمیل کے پیش نظر جموںوکشمیر باالخصوص وادی کشمیر کو منشیات کی کھپت کی ایک بڑی منڈی میںتبدیل کیاجارہاہے۔
منشیات کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سرکاری ایڈمنسٹریشن کی سطح پر منشیات مخالف تحریکیں چلائی جارہی ہیں، ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں، اجلاسوں میں سٹیٹ اور لوگوں کو نشہ مکت بنانے کی سمت میں کوششوں کو درست سمت میں جاری رکھنے اور لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی سمت میں نہ صرف عہد وپیمان کاراستہ اختیار کیاجارہا ہے بلکہ انسدادی اور تدارکی تدابیر کے تحت مختلف پروگرام اور اقدامات بھی اُٹھائے جارہے ہیں، رضارکار ادارے بھی کام کررہے ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں ڈی ایڈیکشن مراکز کے قیام میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود منشیات کی سمگلنگ میں نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ استعمال کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔
یہ صورتحال اہل وادی کیلئے کئی اعتبار سے تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ سمگلنگ اور خریدوفروخت میںملوث لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور ان کی املاک اور اثاثوں کی ضبطیوں کے باوجود یہ وباء قابو میں نہیں آرہی ہے۔ کیوں نہیں آرہی ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ کاتعلق انفرادی انداز فکر اور غلط اپروچ سے ہے، ملوث افراد اور گروہوں کی بڑھتی مادہ پرستی اور اخلاقی اقدار کی پستیوں سے ہے،مجرمانہ انداز فکر اور ذہنیت سے ہے، جبکہ ایک وجہ کا تعلق کسی اور کے مکروہ سیاسی عزائم کی تکمیل سے بھی جوڑا جارہاہے۔
اس معاملے پر اب تک انہی کالمو ں میں بہت کچھ لکھا جاتارہاہے ،کئی ایک تجاویز کا بھی سہارا لیاگیا ہے، مروجہ قوانین اور ضابطوں کا حوالہ دے کر ان میںخامیوں کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی ہے، لیکن یہ سب کچھ کرنے اور کہنے کے باوجود یہ لعنت بُر ی طرح سے گلے پڑ چکی ہے ۔ اس لعنت اور وبائی صورتحال سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عوامی (سماجی سطح ) پر ایک منظم، مربوط اور نتیجہ خیز تحریک برپا کی جائے، جو بھی ملوث ہیںان کا سماجی سطح پر ترک موالات کیا جائے، ان کے جینے مرنے شادی بیاہ وغیرہ کسی بھی سماجی تقریب کے حوالہ سے ان سے ہاتھ نہ ملایا جائے، انتقال کی صورت میں جنازہ کو کاندھا نہ دیاجائے، خرید وفروخت اورکسی بھی طرح کا لین دین اور کاروبار اور راہ ورسم نہ رکھاجائے۔
اس دلخراش اور روح فرسا اُبھرتی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے میر واعظ کشمیرمولوی محمدعمرفاروق اب کچھ عرصہ سے رائے عامہ بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور لوگوں کو اس پھیلتی وباء کے سنگین مضمرات اور معاشرے پر انفرادی اور اجتماعی طور سے مرتب ہونیو الے اثرات اور نقصانات سے آگاہ کررہے ہیں۔ میرواعظ کشمیر کی اس تحریک کی بحیثیت مجموعی عوامی سطح پر سراہنا کی جارہی ہے کیونکہ عمر صاحب نہ صرف میرواعظ کشمیر ہیں اور ایک طرح سے کشمیرکے روحانی پیشوا کی حیثیت رکھنے کے علاوہ ایک قدآور سیاسی رتبہ بھی رکھتے ہیں، لہٰذا یہ توقع کی جارہی ہے کہ ان کی شروع کی گئی تحریک کے مثبت اور تعمیری نتائج برآمد ہوں گے اور لوگ اس تحریک کو منظقی انجام تک لے جانے میںمیرواعظ کی تحریک کا عملی حصہ بن کر اپنی اخلاقی اور معاشرے کے حوالہ سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔
نیشنل کانفرنس نے بھی کچھ ہفتے قبل اس اشو کو لے کر کچھ حرکت کی اور کمیٹی تشکیل دی جو نوائے صبح کمپلکس کی چار دیواری سے کبھی باہر نہیں آسکی۔ نیشنل کانفرنس کی کارکردگی اور سنجیدگی کے تعلق سے اس کے کریڈٹ میں یہ جاتاہے کہ جس کسی اشو کے تعلق سے تشکیل دی جاتی رہی کمیٹی کی قیادت سابق وزیرخزانہ کی جھولی میں ڈالی جاتی رہی، چاہے جسٹس صغیر کمیشن کی سفارشات کے حوالہ سے اندرونی خودمختاری کے بارے میں معاملات کو آگے بڑھانے سے تھا یا مالیاتی نظام کی درستگی کے تعلق سے کوئی اشو درپیش تھا ان معاملات نے کبھی دن کا اُجالا نہیں دیکھا۔
بہرحال میرواعظ کی کاوشوں کے ہی حوالہ سے ڈی ایڈیکشن مراکز کے ذمہ داروں کے ساتھ ان کی حالیہ نشست صورتحال کے تناظرمیں غیر معمولی تھی اور اب آنے والے ایام میں مذہبی علماء کے ساتھ نشست منعقد کرکے معاملے پر غوروفکر اور انسدادی اقدامات کی سمت میں آگے قدم بڑھانے کی حکمت عملی کو طے کرنے کی طرف توجہ مرکوز ہورہی ہے۔ لیکن ان ساری کوششوں اور اقدامات سے قطع نظر یہ سوال ہر زبان پر ہے کہ اتنے پیمانے پر کوششوں ، چھاپوں اور اقدامات کے باوجود ابھی کوئی ایسا سرغنہ ہاتھ نہیں لگا ہے جو اس دھندہ کے پیچھے کام کررہا ہے اور منظم طریقے پر دھندہ کو پھیلا رہا ہے ۔ یہ سوال بھی جواب کے حوالہ سے تشنہ طلب ہے کہ آخر کن راستوں سے منشیات واردِ کشمیر ہورہی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ کنٹرول لائن پر ہزاروں کی تعداد میں مسلح جوان پہرہ دے رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر سمگلنگ کیلئے آخر وہ کون سے راستے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں۔ کچھ وقت پہلے خاکی ایڈمنسٹریشن کے ایک ذمہ دار نے نیپالی راستوں کا دعویٰ کیا تھا جبکہ کچھ میڈیا رپورٹ سرکاری ذرائع کے ہی حوالہ سے دعویٰ کررہے ہیں کہ گجرات، مہاراشٹر، پنجاب اور چند دوسری سرحدی ریاستوں اور بحری راستوں سے منشیات کی سمگلنگ ہورہی ہے۔ ایک سابق پولیس آفیسر نے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے موقعہ پر دعویٰ کیا تھا پولیس کا اُسوقت کا سربراہ منشیات کی سمگلنگ کا سرغنہ ہے ۔ لیکن پولیس ذرائع نے اپنے پرانے ساتھی کے اس دعویٰ کو اس کامسخرہ پن اور مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیاتھا۔
جوکچھ بھی ہے یہ وباء کشمیر تک محدود نہیں، جموںوکشمیر کا ہر علاقہ اس کی لپیٹ میں لایاگیا ہے۔ اگر سرکاری اعداد وشمارات پریقین کیاجائے تو ۱۴؍لاکھ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس لت میں مبتلا ہیں جبکہ گنتی جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جموںوکشمیر اپنی نوجوان نسل کے ایک بڑے حصے سے محروم ہورہی ہے، انہیںنشہ پلا کر مدہوش رکھاجارہاہے، انکی صلاحتیں ، ذہانتیں اور توانائی سلب کی جارہی ہیں جبکہ مستقبل کے حوالہ سے یہ نہ اپنے لئے ، نہ اپنے خاندان کیلئے اور نہ معاشرے کیلئے کوئی کردار ادا کرنے کے اہل ہوں گے ۔ کشمیرکا یہی ایک بڑا المیہ ہے، کشمیر کواس المیہ سے ہم کنار کرنے کا ذمہ دار کون ہے اس کی تلاش معاشرے کی اولین ترجیحات ہونی چاہئے۔