اس سال مئی …جون کے پارلیمانی الیکشن نے کشمیرکا سیاسی منظرنامہ اگر چہ تبدیل نہیں کیا البتہ کئی اعتبار سے اس منظرنامہ کو تہہ وبالا کرکے رکھدیا۔ سیاسی پارٹیوں کو نریٹو نہ صرف بدلنے پر مجبور کردیابلکہ اپنے اپنے سیاسی اہداف، نریٹو اور طرزعمل میںبھی تبدیلی لانے پر مجبورہونا پڑا۔ آسمان کی حد تک باتیں اور دعویٰ کرنے والے پلک جھپکنے میں فرش پر ٹپکتے بھی نظرآئے اور اپنے سیاسی ایجنڈا اور اپروچ سے بھی توبہ کرتے محسوس ہورہے ہیں۔
اس حوالہ سے اپنی پارٹی کے بانی اور سرپرست سید الطاف بخاری کے پارٹی کی تشکیل سے لے کر الیکشن نتائج کے اعلانیہ تک کے سیاسی نریٹو کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جس نریٹو اور اپروچ کے حوالہ سے بخاری صاحب متواتر بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ دعویٰ پر دعویٰ کرتے رہے لیکن نتائج کے آتے ہی ’یوٹرن ‘ لے کر ان سارے دعوئوں اور احتیار کردہ نریٹو سے دستبرداری کا بھی اعلان کیا اور اپنی جگہ غالباً توبہ استغفار کا وردِ بھی کیا ہوگا۔
سید الطاف بخاری نے اپنے اُمیدوار کی الیکشن میں کامیابی یقینی بنانے کیلئے حکمران جماعت کی مدد اور حمایت حاصل کی، ان کی مدد سے چناب خطے اور حلقے کے دوسرے کئی علاقوں میں الیکشن مہم زور وشور سے چلائی لیکن نتیجہ جب آیا تو وہ بخاری صاحب کے مشن، ایجنڈا اور توقعات کے عین برعکس انتہائی یاسیت پر منتج نکلا۔ شکست کو سرپر سایہ فگن محسوس کرتے ہی اپنی پارٹی کا پہلا ردعمل پارٹی کی محاذی اکائیوں کی برخاستگی اورتحلیل کی صورت میں سامنے آیا۔ کہا گیا کہ ان اکائیوں کی الیکشن میںحصہ داری اور فعالیت غیر موثر ثابت ہوئی۔ حالانکہ ان کے پاس الیکشن مہم چلانے کیلئے وسائل اور زمینی سطح پر سہولیات کی کوئی کمی نہیں تھی۔
پیپلز کانفرنس (سجاد غنی لون) اور کئی دوسری پارٹیوں کی مدد اور حمایت کے باوجود آخر شکست کی اصل وجوہات کیارہی اس بارے میں ابھی کئی پہلو تجزیاتی مراحل سے ہی گذر رہے ہیں البتہ اپنی پارٹی نے اپنے قیام کے پہلے دن سے لے کر آخر تک جو ایجنڈا پیش کیا، جس نریٹو کو عوام کے دربار میںرکھا، کشمیر نشین دوسری سیاسی پارٹیوں کے بارے میں روایتی اور خاندانی اور ساری علتوں کے لئے واحد ذمہ د ار اور قصوروار ٹھہرا ٹھہرا کر اور پانی پی پی کرانہیں کوستے رہے ، ان سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈر شپ کی کردارکشی کرتے رہے، خودکو مرحوم بخشی غلام محمد کا ثانی بننے کی خواہش ظاہر کی، کالعدم شدہ دفعہ ۳۷۰؍ کے بارے میں پینترا بازی سے کام لیتے رہے، زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں میںمقامی باشندوں کے حقوق کاتحفظ یقینی بنانے کی مرکزی قیادت سے ضمانت حاصل کرنے سے لے کر کئی ایک حساس سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی معاملات کے تعلق سے بلند بانگ دعویٰ بھی ان سے منسوب ریکارڈ پر ہیں۔
لیکن یہ سارے دعویٰ ، یہ سارے نریٹو، یہ سارے لالی پف کی مانند ہی ثا بت ہوئے کیونکہ عوام نے ان سبھی دعوئوں، نریٹوز اور طرز فکر کو اس حد تک مسترد کردیا کہ خود بخاری صاحب کے اختیار کردہ اسمبلی حلقے کے ووٹروں نے بھی ان سے وفا نہ کی۔
بہرحال یہ سب اپنی جگہ، مثل کے مصداق بخاری صاحب الٹے قدموں واپس لوٹ آئے، روایتی اور خاندانی سیاسی پارٹیوں کے تعلق سے اپنا پہلے کا نریٹو اور اپروچ ترک کرکے درپیش سیاسی، اقتصادی اور انتظامی معاملات اور اختیارات کے تعلق سے ایک پلیٹ فورم پر مجتمع ہوکر مشترکہ حکمت عملی وضع کرکے اختیار کرنے کی اپیل کی۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ’’بہت دیر کردی مہربان آتے آتے‘‘۔ کشمیر کے تعلق سے ایک مشترکہ نریٹو وضع کرکے اختیار کرنے کی آوازیں سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ انہی کا لموں میں آئے روز باالخصوص گذشتہ پانچ سالوں سے تحریری شکل میں، مشاورت کے اعتبار سے، اپیلوں کی صورت میں پیش کی جاتی رہی لیکن بخشی مرحوم ثانی بننے کی خواہش نے گرد وپیش سے بے اعتنائی کاہی راستہ اختیار کیاجاتارہا۔
اب جبکہ الطاف صاحب پر سرد وگرم سیاسی پہلو مختلف طریقوں سے آشکارا ہوئے اور بھی آشکارا ہونے کیلئے پائپ لائن سے باہر آرہے ہیں تو اپنی پارٹی نے نیا نریٹو پیش کیا، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نیا نریٹو عوام کی خواہشات ، ضروریات اور وقت کے تقاضوں سے کماحقہ ہم آہنگ ہے۔
پہلے نریٹو یہ تھا کہ جیسے بھی ہو اسمبلی الیکشن کرائے جائیں۔ اب اسمبلی الیکشن سے قبل ریاستی درجہ کی اُس سطح پر بحالی کو یقینی بنایاجائے جو ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے قبل ریاست کو حاصل تھا۔ واضح کردیا کہ ’’دہلی طرز کا’ سٹیٹ ہڈ‘ اپنی پارٹی کیلئے قابل قبول نہیں اور اس کی مزاحمت کی جائیگی۔ اپنی پارٹی علاقائی پارٹی کا درجہ رکھتی ہے جو عوام کی خدمت کو اپنا شعار اور حقوق کا تحفظ کیلئے عہد بند ہے، ہمارا عوام پر ور ایجنڈا ہے جبکہ ہمارا کسی پارٹی یا تنظیم کے ساتھ گٹھ جوڑنہیں ہے‘‘۔
اپنی پارٹی امر ناتھ یاتریوں کا خیر مقدم کرتی ہے، لیکن یاتریوں کے قافلوں کو راہداری فراہم کرنے کے لئے مقامی آبادی اور ٹریفک کی نقل وحرکت کو جس طریقے پر اس شدت کی گرمی میں معطل کیا جارہا ہے یا روک لیاجارہا ہے ایسا مقامی لوگوں کے شہری حقوق کی قیمت پر کیاجارہا ہے اورانہیں تکلیف میں مبتلا کیاجارہاہے۔ سالہاسال سے قید ؍نظربندوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا تاکہ قیام امن کی جاری کاوشوں کو ان کی موجودگی سے جلا ملے اور وہ اپنے اہل کنبہ کے ساتھ معمول کی زندگی بسر کرسکیں۔روز گار کے متلاشیوں کیلئے پاسپورٹ کاحصول دشوار بنایاگیا ہے، اس پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ اس طرزعمل نے ہزاروں نوجوانوں کیلئے بے پناہ مشکلات کو جنم دے رکھا ہے۔
جہاں تک سجاد غنی لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس کا تعلق ہے تو الیکشن میںشکست کے بعد اُس پارٹی کے اندر بھی موجوں کا تلاطم دیکھنے میں آرہاہے۔ اگر چہ پہلی کیجولٹی سابق ممبر کونسل اور سابق وائس چیئرمین وقف بورڈ نظام الدین بٹ بن گئے، قطع نظر اس کے کہ انہوںنے خود ہی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن درپردہ معاملات کچھ اور ہی فرض کئے جارہے ہیں ۔ غالباً اس میں بانڈی پورہ حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک سابق ممبر اسمبلی کے سیاسی مفادات کا تحفظ کا پہلو بھی سامنے سوال کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے یا محسوس کیاجارہاہے۔