لوک سبھا اجلاس کے پہلے ہی دن سے حکمراں محاذ کو اپوزیشن اپنی طاقت کا احساس دلا رہا ہے۔ اوم برلا کو ایک بارپھر اسپیکر بنا کر حکومت بھلے ہی یہ باور کرانا چاہ رہی ہو کہ وہ سابقہ لوک سبھا کی طرح ہی کام کرے گی لیکن اسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اٹھارہویں لوک سبھا، سترہویں لوک سبھا سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اسپیکر کے انتخاب کیلئے حزب اختلاف کی جماعتوں کو منانے کی کوشش کرنا اور راہل گاندھی کو اس ایوان میں اپوزیشن لیڈر کے طورپر دیکھنا، جہاں سے انہیں نکالنے کی پوری کوشش کی گئی تھی،اس کا بات کاواضح ثبوت ہے۔بدھ کو اسپیکر کے طورپر اوم برلا کے انتخاب کے بعد وزیراعظم مودی اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا لوک سبھا کیلئے ایک یادگار پل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
۱۸؍ویں لوک سبھا کئی اعتبار سے راہل گاندھی کیلئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس بار نہ صرف یہ کہ انہیں اپوزیشن کا لیڈر منتخب کیا گیا بلکہ ان کی شکل میں لوک سبھا کو ۱۰؍ سال بعد اپوزیشن کا لیڈر ملا ہے۔ ان کیلئے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ موجودہ لوک سبھا کے ۵۴۲؍ اراکین میں وہ واحد رُکن ہیں جنہیں دو لوک سبھا حلقوں سے اور وہ بھی بھاری ووٹوں کے فرق سے کامیابی ملی ہے۔ان کی کامیابی میں ووٹوں کافرق وزیراعظم مودی کی جیت کے فرق سے کافی زیادہ ہے، حالانکہ بی جے پی نے انہیں ’پپو‘ ثابت کرنے کی پوری کوشش کرڈالی تھی۔ کانگریس کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ راہل گاندھی کو ’پپو‘ ثابت کرنے کیلئے بی جے پی کی جانب سے کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
بدھ کو اسپیکر کے طور اوم برلا کاا نتخاب ہونے کے بعد وزیراعظم مودی اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اوم برلا کو مبارکباد دی اور انہیں ان کی مسند تک پہنچایا۔ اس موقع پر راہل گاندھی نے وزیراعظم سے ہاتھ بھی ملایا۔ بعد ازاں اپنی جگہ پہنچ کر راہل گاندھی نے اوم برلا کو مبارکباد دیتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اسپیکر کے طور پر وہ ہر پارٹی کا احترام کریں گے اور غیر جانبداری سے سب کی بات سنیں گے ۔ اپوزیشن لیڈر کے طورپر انہوں نے اسپیکر کو یاد دلایا کہ ’’حکمراں جماعت کے پاس بلاشبہ بہت سارے اختیارات ہیں لیکن اپوزیشن بھی عوام کی آواز ہے اور عوام کی آواز پارلیمنٹ میں سنی جانی ضروری ہے۔ انہیں امید ہے کہ اوم برلا ایوان میں سب کو یکساں موقع فراہم کریں گے اور آئین کے تحفظ کیلئے ملک نے جس اپوزیشن کو حمایت دی ہے، اس کا احترام کریں گے۔‘‘
اس بار لوک سبھا میں کانگریس بھی مضبوط ہوکر سامنے آئی ہے۔
۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں اس کے پاس اتنی بھی سیٹیں نہیں آئی تھیں کہ وہ ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ طلب کرسکے لیکن اس بار اس کی سیٹوں کی تعداد میں تقریباً ۱۰۰؍ فیصد کی بہتری آئی ہے۔ وہ گزشتہ انتخابات میں ملنے والی ۵۲؍ نشستوں کے بجائے ۹۹؍ سیٹوں پر پہنچ گئی ہے جبکہ نئی لوک سبھا کیلئے منتخب۲؍ اراکین بہار سے پپو یادو اور مہاراشٹرسے وشال پاٹل نے کانگریس پارٹی کے ساتھ رہنے کا اعلان کردیا ہے۔ کانگریس کیلئے اتنی سیٹیں اسلئے بھی بہت اہم ہیں کہ ملک کی حکمراں طاقت نے ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا تھا اور اس کیلئے اس نے پوری طاقت جھونک دی تھی۔عین انتخابات کے دوران کانگریس پارٹی کے سارے اکاؤنٹس کا منجمد کردئیے گئے تھے ، اس کے پاس الیکشن لڑنے کا فنڈ نہیں تھا لیکن کانگریس پارٹی نے نہ صرف خود کو مستحکم کیا بلکہ لوک سبھا میں اپوزیشن کاعہدہ بھی حاصل کرلیا ۔
وطن عزیز میں ایسے کئی سیاسی عہدے ہیں، جنہیں کافی طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ انہیں میں سے ایک قائد حزب اختلاف کا عہدہ بھی ہے۔ کانگریس کیلئے یہ اطمینان کی بات ہوگی کہ راہل گاندھی کو کابینی وزیر کا درجہ ملے گا اور انہیں وہ سہولتیں دی جائیں گی جو ایک وزیرکو ملتی ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن لیڈر کی صورت میں کانگریس کو کافی اختیارات بھی ملیں گے جن میں کئی اہم سرکاری عہدیداران اور افسران کاانتخاب بھی شامل ہے۔ دراصل اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ہی وہ کئی مشترکہ پارلیمانی پینل اور سلیکشن کمیٹیوں کا بھی حصہ ہوں گے۔ ان میں سی بی آئی کے ڈائریکٹر، سینٹرل ویجی لنس کمشنر، الیکشن کمیشن کے الیکشن کمشنرس اور چیف الیکشن کمشنر، چیف انفارمیشن کمشنر، لوک آیوکت، قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین اور اس کے ممبران کی تقرری کرنے والی کمیٹیاں شامل ہیں۔
اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ
۱۰؍ سال بعد لوک سبھا میںاس طرح کا موقع آیا ہے جب اپوزیشن کی جماعتیں حکمراں محاذ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کی پوزیشن میں پہنچی ہیں۔ اس مرتبہ بی جے پی کے ۲۴۰؍ کے مقابلے اپوزیشن کی ۲۳۳؍ سیٹیں ہیں۔ ان میں سے صرف چار بڑی جماعتوں کانگریس (۹۹)، سماجوادی پارٹی (۳۷) ، ترنمول کانگریس (۲۹) اور ڈی ایم کے (۲۲) کی سیٹوں کی تعداد ۱۸۷؍ ہے۔ اپوزیشن کی اسی طاقت کی وجہ سے اس مرتبہ اسپیکر کے انتخاب کیلئے حکمراں محاذ ، حزب اختلاف کے لیڈروں سے کئی دور کی بات چیت کرنے پر مجبور ہوا ورنہ اس کے مزاج میں کسی سے بات چیت کہاں ہے۔
اپوزیشن کو بھی اپنی طاقت کااحساس ہے، اسلئے وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چا ہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس مرتبہ اپوزیشن کی طرف سے ’شیڈو کابینہ‘ تشکیل دیئے جانے کا منصوبہ ہے جس میں کانگریس کے ساتھ ہی اس کی تمام حلیف جماعتیں شامل ہوں گی۔ اس کے تحت نئی حکومت کے ایک ایک محکمے کا جائزہ لے کر اسے جوابدہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی کوشش کے تحت اجلاس کے پہلے دن راہل گاندھی نے مودی حکومت کے ۱۵؍ دنوں کا رپورٹ کارڈ پیش کرتے ہوئے اسے آئینہ دکھایا تھا۔ اطلاعات کے مطابق بہت جلد اپوزیشن کی جانب سے سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے کو بھی اہم ذمہ داریاں دی جانے والی ہیں۔ اسی طرح این سی پی (شرد پوار)، شیوسینا (یو بی ٹی) ، آرجے ڈی اور ’انڈیا‘ اتحاد کی دیگر جماعتوں کو بھی ذمہ داریاں دی جائیں گی۔ مجموعی طور پر اپوزیشن اس بار حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دے گا۔